کورونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے 'قومی منصوبے' کی ضرورت بتائی ہے۔ ساتھ ہی مرکزی حکومت سے 4 نکات پر جوابات بھی طلب کیے ہیں۔
وہ چار نکات جو سپریم کورٹ نے دیے ہیں، آکسیجن کی کس طرح فراہمی، ضروری ادویات، ویکسینیشن کی قسم اور ریاست میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کسے کرنا چاہئے؟ کیا ہائی کورٹ بھی اس طرح کا حکم دے سکتا ہے؟۔ سپریم کورٹ دوپہر 12.15 بجے سماعت کرے گی۔
اس سے قبل 23 اپریل کو معاملے کی سماعت کے دوران جج نے برہمی کا اظہار کیا تھا کہ دو دن میں سینیئر وکیل اور تمام لوگوں نے سپریم کورٹ کے ارادے سے متعلق طرح طرح کے الزامات عائد کیے ہیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ایل ناگیشورا راؤ اور ایس رویندر بھٹ نے کئی بار کہا کہ ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ کسی ہائی کورٹ کو سماعت سے روکیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش صرف یہ ہے کہ قومی سطح پر ضروری ادویات اور آلات کی تیاری اور نقل و حرکت کے مسئلے کو کم کیا جاسکے لیکن لوگوں نے سپریم کورٹ کے حکم کو سمجھے بغیر طرح طرح کے تبصرے شروع کردیئے۔
ججوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سینیئر وکلاء بھی ایسا کرنے میں ملوث تھے۔ سابق چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کے دور اقتدار کا یہ آخری دن تھا۔
موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے جمعرات کو کہا تھا کہ آکسیجن وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کے لئے ایک 'لازمی حصہ' ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سے کچھ 'گھبراہٹ' پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے کئی لوگوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔