ریاست اتراکھنڈ کے دارالحکومت دہرادون کے آئی ایم اے میں جب جوان قدم رکھتے ہیں تو ان جوانوں کے حوصلے اور بلند ہوجاتے ہیں۔
آئی ایم اے کی یادوں کو محفوظ کرنے کے بعد اس بار بھی 325 جوان افسران کو بھارت کی خدمت کے لیے مختلف مقامات پر تعینات ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ آئی ایم اے میں سخت تربیت کے بعد ہر وہ علم جوانوں کو دیا جاتا ہے، تاکہ ان جذبہ ملک کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہے۔
آج ہم آپ کو دہرادون کی تاریخی عمارت میں رکھے ہوئے پاکستانی پرچم کی کہانی سنانے جارہے ہیں، آپ یہ بھی سوچیں گے کہ انڈین ملٹری اکادمی میں پاکستان کے پرچم کا کیا کام؟
یہ پرچم نہ محض نئے جوانوں کا حوصلہ بلند کرتا ہے بلکہ آج سے 59 برس پہلے کی کہانی بیاں کرتا ہے جب بھارت نے جنگ میں پاکستان کو شکست دی ہی نہیں بلکہ ان کو گھٹنوں کے بل کھڑا کردیا تھا۔
انڈین ملٹری اکیڈمی نے نہ صرف بھارت بلکہ پڑوسی ملک پاکستان اور برما کو بھی آرمی چیف دیا ہے۔ بہت سے دوسرے ممالک میں آئی ایم اے سے تربیت یافتہ جنٹلمین کیڈٹز اپنے اپنے ممالک میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔
واضح رہے کہ آئی ایم اے میں جوانوں کو تربیت دی جاتی ہے، انہیں جنگ میں استعمال ہونے والی ہر مہارت کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہتھیاروں کی فراہمی سے لے کر جنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے تک فوج کے افسران کو تیار کیا جاتا ہے۔
تربیت کا ایک اہم حصہ یہ بھی ہے جب فوجیوں کو بھارتی فوج کے لڑے جانے والی جنگوں کی تاریخ بتائی جاتی ہے۔ اس تربیت کے دوران آئی ایم اے میں رکھے ہوئے پاکستان کے جھنڈے کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کیسے سنہ 1971 کی جنگ میں بھارتی جانبازوں نے پاکستان کو شکست دی تھی۔ اور کس طرح پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں نے گھٹنوں کے بل بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
جھنڈے کی کہانی کچھ ایسی ہے کہ جب پاکستان نے کشمیر کے ہوائی اڈوں پر حملہ کیا تو بھارت کو نہیں معلوم تھا کہ پاکستان یہ چال چل سکتا ہے لیکن باھرتی فوجیوں نے پوری تیاری کے ساتھ مشرق اور مغرب سے پاکستان پر حملہ کیا جس کے بعد بھارت نے مشرقی حصے پر قبضہ کرلیا۔ جسے آج بنگلہ دیش کے نام سے جاناجاتا ہے۔
سنہ 1971 کی جنگ کسی کے ساتھ نہیں بلکہ سیم مانیکشا کے ساتھ تھی، جو آئی ایم اے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ سیم مانیکشا کو پاکستان فتح کرنے کے بعد فیلڈ مارشل کا خطاب دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو فتح کرنے کے بعد ہی بھارتی فوج مغربی خطے سے یہ پاکستانی پرچم لائے۔ اس وقت سے پاکستانی پرچم کو انڈین ملٹری اکادمی میں فریم کرکے رکھا گیا ہے۔
ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ میں سنہ 1971 کا سال بہت اہم ہے۔ اسی سال بھارت نے پاکستان کو ہرایا تھا جس کا درد پاکستان ہمیشہ محسوس کرتا رہے گا۔
بنگلہ دیش کے بارے میں بات کریں تو یہ وہی سال تھا جب بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا تھا۔
بھارت کا سب سے مضبوط آرمی چیف سیم مانیکشا جس کے سامنے وزیراعظم بھی نہیں تھا اور بھارت نے سیم مانیکشا کی سربراہی میں سنہ 1971 میں پاکستان کو شکست دی تھی۔
سیم مانیکشا ترقی بھارتی فوج کا پہلا جنرل بن گیا جسے فیلڈ مارشل کا درجہ دیا گیا۔
سام مانیکشا نے سنہ 1971 کی بھارت پاکستان جنگ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا ان کی قیادت میں بھارت نے پاکستان کے خلاف کامیابی حاصل کی۔
سیم مانیکشا کا پورا نام ہرموزجی فرامدی جمشید جی مانیکشا تھا۔ سیم مانیکشا تین اپریل سنہ 1914 کو امرتسر کے ایک پارسی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی اس کی نڈر اور بہادری کی وجہ سے ان کے چاہنے والوں نے انہیں سیم بہادر کہا۔
ان والد ڈاکٹر تھے،سیم بھی ڈاکٹر بننا چاہتے تھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، والد سے بغاوت کرتے ہوئے انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا امتحان دیا اور بھارتی فوج میں شامل ہوگئے۔
جب بھارت اور پاکستان کے مابین سنہ 1971 کی جنگ شروع ہوئی تھی، تو اندرا گاندھی کی خواہش تھی کہ یہ جنگ مارچ کے مہینے میں لڑی جائے لیکن سیم جانتے تھے کہ جنگ کی تیاری مکمل نہیں ہے، اس انہوں نے اندرا سے یہ جنگ لڑنے سے انکار کردیا۔
انڈرا گاندھی ان کا 'انکار' سن کر ناخوش تھیں لیکن سیم نے کہا کہ ہماری فوج ابھی تک تیار نہیں ہے اگر اب ہم جنگ لڑتے ہیں تو ہم ہار جائیں گے، کیا آپ جیت نہیں دیکھنا چاہتیں؟
سیم نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ 'جنگ لڑنے کے یئے چلے جاؤ' لیکن میں تیار نہیں تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے فوکس کرنا ہے منصوبہ بندی کرنا ہے، فوج کو تیاری کرنا ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔
اس وقت سیم مانیکشا واحد شخص تھے جس نے وزیراعظم سے انکار کرنے کی ہمت کی۔ وہ جانتے تھے کہ نامکمل تیاری کے ساتھ میدان جنگ میں جانا شکست کا چہرہ دیکھنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے اندرا گاندھی کا غصہ برداشت کرنا بہتر سمجھا نا کہ اس وقت کی جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑے۔
واضح رہے کہ اندرا گاندھی کے انکار کرنے کے سات ماہ بعد سام مانیکشا جنگ کے لیے راضی ہوگئے تھے۔
سیم مانیکشا کئی ایک اعزاز سے سرفراز کیا گیا سنہ 1972 میں حکومت ہند نے انہیں پدم وبھوشن سے نوازا۔ اس سے قبل انہیں پدم بھوشن سے بھی نوازا گیا تھا تاہم سنہ 1973 میں انہیں فیلڈ مارشل کا درجہ دیا گیا۔
بھارت کے لیے 27 جون سنہ 2008 ایک ایسا سیاہ دن تھا بھارت کے اس جانباز مجاہد نے دنیا کو الوداع کہا ۔