ریاست بہار کے ضلع گیا کے رہنے والے تنزیل الرحمان خان کو پرندوں سے بے انتہا محبت ہے، وہ پرندوں کے لیے اپنی مٹی کے گھر کو پرندوں کا گھر بنا دیا اور گھر سے لے کر درختوں پر مٹی کے مٹکے لٹکا کر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
تنزیل نے پرندوں کے لیے ایک ڈاکٹر کو بھی رابطے میں رکھا ہے جسے ہر ماہ فیس ادا کرتے ہیں تاکہ بیمار ہونے پر پرندوں کا علاج ہو سکے ۔
پرندوں کو پانی دانا دیتے تو کئی کو دیکھا ہوگا لیکن ایک شخص ایسا بھی ہے جس کو پرندوں سے بے انتہا محبت ہے۔
ماحولیات کو متوازن رکھنے کے لحاظ سے بھی پرندوں کی حفاظت انتہائی ضروری ہے.
گیا کے بودھ گیا بلاک میں واقع چیرکی تھانہ کے نسکھا گاؤں کے رہنے والے تنزیل الرحمان خان پرندوں کے نہ صرف شیدائی ہیں بلکہ وہ علاقے کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش میں بھی مصروف ہیں۔
پرندوں کے شیدائی نہ صرف تنزیل الرحمان ہیں بلکہ انکے بھائیوں میں پروفیسرز ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان اور ڈاکٹر توصیف الرحمن خان سمیت پورا کنبہ اس فہرست میں شامل ہے۔
دراصل موجودہ وقت میں ہمارے درمیان سے بہت سے پرندے دور ہوتے جا رہے ہیں ان میں سے ایک " گوریا" بھی ہمارے گاؤں کے گھروں کے صحن سے بھی ختم ہو رہی ہے
بچپن میں تنزیل الرحمان اپنے گاؤں اور گھروں میں فاختہ پرندہ سے لیکر کبوتر، گوریا جیسے کئی پرندوں کو دیکھتے تھے، تاہم گاوں میں بھی بدلتے حالات اور سہولیات کی فراہمی کے بعد لوگوں کی فکر میں تبدیلی آتی چلی گئی اور مٹی کے مکانات سے پختہ مکانات بننے لگے۔
پرندوں کے شیدائی بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے. گاوں کو بدلتے دیکھ پرندوں نے بھی علاقے بدلنے شروع کردیے.
ایک وقت ایسا آیا کہ جہاں ہزاروں کی تعداد میں پرندے نظر آتے وہاں ایک بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔
تنزیل الرحمان کم عمری کے مناظر کو یاد کرکے پرندوں کی اسی چہچہاہٹ کو سننے کے لیے پرندوں کی اپنے گھر میں آمد پر پہلے کام کیا۔
پرندوں اور خاص کر گوریا کے تحفظ کے لئے ایک سبق آموز اور پیغام دینے والا کام تنزیل الرحمان خان نے کیا ہے.
پرندوں سے ان کی منفرد محبت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے گھر کے قریب پرندوں کے لیے بھی گھر بنائے ہیں۔
پرندوں کے لیے لکڑی اور مٹی سے بنائے گھر میں صرف پرندے رہتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مٹی کے گھر کو اسی طرح برقرار رکھا ہے اور اس مکان کے زیادہ تر کمروں و حصوں کو پرندوں کے لیے ہی وقف کر دیا ہے.
ان کا مقصد نہ صرف گوریا کے تحفظ کا ہے بلکہ سبھی پرندوں کے تحفظ کا مقصد ہے پرندے جس قدرتی طریقے سے اپنا مسکن تلاش کرتے ہیں۔
تنزیل الرحمٰن خان کو پرندوں سے ایسی محبت کے اگر کوئی پرندوں کو مارے تو پہلے تو وہ ان سے لڑ جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے گاؤں اور آس پاس میں ایر گن چلانے پر روک لگا دیا ہے اسی بات کو لے کر کئی بار لوگوں سے ان کا جھگڑا بھی ہوا ہے۔
اب وہ چاہتے ہیں کہ حکومت بھی ان کا ساتھ دے اور پرندوں کو مارنے والوں پر پولیس سخت کارروائی ہو سکے۔
اگر پرندہ بیمار ہو جائے یا انہیں کسی طرح کا زخم ہو جاتا ہے تو وہ جھارکھنڈ کے دھنباد کے ایک ڈاکٹر سے بھی رابطہ میں رہتے ہیں اور ڈاکٹر کے مشورے پر علاج بھی کرواتے ہیں۔
اس کے لیے تنزیل ڈاکٹر کو ہر ماہ فیس بھی ادا کرتے ہیں تاکہ کہ ان کے پرندے محفوظ رہیں اور وقت پرندوں کا علاج ہو سکے۔
مزید پڑھیں:نئی ٹیکنالوجی سیکھنے سے طلبہ کو روزگار کے بہتر مواقع ملیں گے: نتیش
ای ٹی وی بھارت کو تنزیل بتاتے ہیں کہ پرندوں کے لیے مکان بنوایا تو پہلے ایک دو کی تعداد میں ہی پرندے خاص طور پر گوریا اور کبوتر تھے تاہم بعد میں ان کی تعداد بڑھ گئی جو اب ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔
پرندوں کے لیے دانے سے لے کر پانی تک کا انتظام کرتے ہیں وہ فطری انداز میں ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
متوازن درجہ حرارت والے ایک گھر بنانے کی بھی ان کی کوشش ہے گھر سے لے کر باغیچہ کھیت میں بھی مٹی کے مٹکے لٹکا دیا ہے۔
تنزیل نے پرندوں کے لیے مٹی کا آشیانہ نہ صرف اپنے گھر میں بنوایا ہے بلکہ کھیت میں بھی مٹی کے مٹکے لگوائے ہیں۔
باغیچے میں درختوں پر درجنوں مٹی کے مٹکے لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں. اب تو ان کا پورا کنبہ پرندوں سے محبت کرتا ہے۔
بچے بھی اپنے والد کے جذبات اور محبت کا خیال رکھتے ہیں تنزیل الرحمٰن کے بھائی ڈاکٹر توصیف الرحمن خان کا ماننا ہے کہ زیادہ موبائل ٹاور وغیرہ لگنے کی وجہ سے بھی پرندے کم ہو رہے ہیں۔
پرندوں کے لیے گھونسلے بنائے جانے سے یہ پرندے خاص کر گوریا کی چہچہاہٹ صبح اور شام میں سننے کو ملتی ہے. جس سے قلبی سکون میسر ہوتا ہے اور اس سے کئی طرح کی بیماریاں نہیں ہوتی ہیں۔
تنزیل کا کہنا ہے کہ گوریا کے پنکھ کی ہوا سے بیماری نہیں ہوتی ہے۔
تنزیل الرحمن خان کہتے ہیں کہ پہلے گوریا کے تحفظ کے لیے قدم اٹھایا پھر خیال آیا کہ سبھی پرندوں کا تحفظ کیا جائے۔
اس کے بعد وہ اس سمت میں مسلسل کام کر رہے ہیں تاکہ ماحولیات زہر آلود ہونے سے محفوظ رہیں۔