ETV Bharat / bharat

خصوصی رپورٹ: خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی

author img

By

Published : Apr 20, 2021, 9:20 AM IST

شکیل بدایونی اردو ادب کا ایک ایسا نام، جن کے نغمے آج بھی لوگوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی پوری زندگی اردو ادب کے نام وقف کر دی۔ شکیل احمد ،تین اگست 1916 کو اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔

Special Article on Poet Shakeel Badayuni
خصوصی رپورٹ: خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی

شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست 1916کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں کے ایک مذہبی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے، اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے ۔

معروف شاعر شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل سنہ 1970 کو ممبئی میں ہوا تھا اور وہیں باندرہ قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی تھی۔ لیکن اب ان کی قبرکا کوئی نشان باقی نہیں ہے ۔ البتہ ان کے شعری نغمے آج بھی فضاﺅں میں گونج رہے ہیں اور ان کی غزلیں گلوکار ابھی بھی گاتے ہیں۔ سامعین اب بھی سنتے ہیں اور ان کے طرز ادا کی داد دیتے اور سر دھنتے ہیں۔

شکیل بدایونی علی گڑھ کے دوران قیام ہی یہ شاعری کرنے لگے تھے اور انہیں جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل ہوئی، جو ان کو اپنے ساتھ مشاعروں میں لے گئے اور پھر ممبئی کی فلمی دنیا میں داخل کر دیا۔

وشاد کے ساتھ مل کر شکیل نے درجنوں فلموں کے سینکڑوں لازوال نغمے تخلیق کیے، جن میں دلاری، دیدار، بیجوباورا، اڑن کھٹولا، آن، مدر انڈیا، گنگا جمنا، اور مغلِ اعظم جسی فلمیں شامل ہیں۔ موسیقار اور گیت نگار کی اس جوڑی کو بھارتی فلمی صنعت کی مقبول ترین اور طویل ترین عرصے تک چلنے والی جوڑی کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔

ایک عرصے تک شکیل صرف نوشاد تک محدود رہے، تاہم 1960 میں انھوں نے دوسرے موسیقاروں کے لیے بھی لکھنا شروع کر دیا:

اس حوالے سے ایک بار شکیل نے کہا تھا: 'میں شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ نوشاد صاحب کے ساتھ گیت لکھنے میں مجھے عزت اور مقبولیت تو بے پناہ مل رہی تھی، لیکن میری مالی حیثیت میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی تھی۔'

شکیل بدایونی نے موسیقار روی کے لیے 'چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو' لکھا جو عروضی غلطی کے باوجود نہ صرف گلی گلی بجنے لگا بلکہ 1961 میں شکیل کو اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی اسی پر ملا۔

اس کے بعد مسلسل اگلے دو سال انھیں 'حسن والے ترا جواب نہیں،‘ اور ’کہیں دیپ جلے کہیں دل،‘ پر فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ حیرت انگیز طور پر انھیں نوشاد کی شراکت میں بنائے گئے کسی نغمے پر یہ اعزاز نہیں مل سکا۔

شکیل نے ایک سو سے زائد فلموں کے لیے گانے لکھے اور ان کے گانے بے حد مقبول ہوئے، ہر شخص کی زبان پر تھے ۔ آج بھی ان گانوں کو سن کر لوگ جھومنے لگتے ہیں۔

مغل اعظم کا گانا پیار کیا تو ڈرنا کیا، اے عشق یہ سب دنیا والے بے کار کی باتیں کرتے ہیں، ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی جیسے گانے کافی مقبول ہوئے۔

لیکن فلمی دنیا کی مصروفیت میں شکیل نے اپنے آپ کو بالکل ضم نہیں کر دیا تھا، وہ غزلیں بھی کہتے رہے اور ان کے 5 شعری مجموعے نغمۂ فردوس، صنم و حرم ، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں شائع ہوئے اور کلیات شکیل کی اشاعت بھی ان کی زندگی میں ہو گئی تھی۔

شکیل بدایونی کی غزلوں کے کچھ منتخب اشعار

*ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا*

*ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے*

‏‎‎جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل

مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

*‏‎وہی کارواں وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے*

*مگراپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں*

‏صد حیف کہ برباد ہوئے ہم تری خاطر

صد شکر کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا

*‏نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے*

*یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے*

‏میرا عزم اتنا بلند ہے ، کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں

مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

*‏کبھی یک بہ یک توجہ، کبھی دفعتاً تغافل*

*مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر*

‏ہم نے پایا ہےمحبت کا خمارِ ابدی

کیسےہوتےہیں وہ نشےکہ اُترجاتے ہیں

*‏اس کثرتِ غم پہ بھی مجھے حسرتِ غم ہے*

*جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں*

‏ستم نوازی پیہم ہے عشق کی فطرت

فضول حسن پہ تہمت لگائی جاتی ہے

*‏دُور ہوں لیکن بتا سکتا ہوں ان کی بزم میں*

*کیا ہوا ،کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے کو ہے*

‏ہو تو کمالِ ربطِ محبت کسی کے ساتھ

دل چیز کیا ہے دے دوں جاں بھی خوشی کے ساتھ

*‏اُنہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں*

*میں جو اُن سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے*

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر

پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

*بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں*

*ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں*

چاہئے خود پہ یقین کامل

حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی

*دنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں*

*چھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں*

دشمنوں کو ستم کا خوف نہیں

دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

*ہر دل میں چھپا ہے تیر کوئی ہر پاؤں میں ہے زنجیر کوئی*

*پوچھے کوئی ان سے غم کے مزے جو پیار کی باتیں کرتے ہیں*

جینے والے قضا سے ڈرتے ہیں

زہر پی کر دوا سے ڈرتے ہیں

*کیا اثر تھا جذبۂ خاموش میں*

*خود وہ کھچ کر آ گئے آغوش میں*

بے تعلق ترے آگے سے گزر جاتا ہے

یہ بھی اک حسن طلب ہے تیرے دیوانے کا

*تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو*

*آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ...!*

وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں

بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں

*غم حیات بھی آغوش حسن یار میں ہے*

*یہ وہ خزاں ہے جو ڈوبی ہوئی بہار میں ہے*

شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست 1916کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں کے ایک مذہبی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے، اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے ۔

معروف شاعر شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل سنہ 1970 کو ممبئی میں ہوا تھا اور وہیں باندرہ قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی تھی۔ لیکن اب ان کی قبرکا کوئی نشان باقی نہیں ہے ۔ البتہ ان کے شعری نغمے آج بھی فضاﺅں میں گونج رہے ہیں اور ان کی غزلیں گلوکار ابھی بھی گاتے ہیں۔ سامعین اب بھی سنتے ہیں اور ان کے طرز ادا کی داد دیتے اور سر دھنتے ہیں۔

شکیل بدایونی علی گڑھ کے دوران قیام ہی یہ شاعری کرنے لگے تھے اور انہیں جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل ہوئی، جو ان کو اپنے ساتھ مشاعروں میں لے گئے اور پھر ممبئی کی فلمی دنیا میں داخل کر دیا۔

وشاد کے ساتھ مل کر شکیل نے درجنوں فلموں کے سینکڑوں لازوال نغمے تخلیق کیے، جن میں دلاری، دیدار، بیجوباورا، اڑن کھٹولا، آن، مدر انڈیا، گنگا جمنا، اور مغلِ اعظم جسی فلمیں شامل ہیں۔ موسیقار اور گیت نگار کی اس جوڑی کو بھارتی فلمی صنعت کی مقبول ترین اور طویل ترین عرصے تک چلنے والی جوڑی کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔

ایک عرصے تک شکیل صرف نوشاد تک محدود رہے، تاہم 1960 میں انھوں نے دوسرے موسیقاروں کے لیے بھی لکھنا شروع کر دیا:

اس حوالے سے ایک بار شکیل نے کہا تھا: 'میں شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ نوشاد صاحب کے ساتھ گیت لکھنے میں مجھے عزت اور مقبولیت تو بے پناہ مل رہی تھی، لیکن میری مالی حیثیت میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی تھی۔'

شکیل بدایونی نے موسیقار روی کے لیے 'چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو' لکھا جو عروضی غلطی کے باوجود نہ صرف گلی گلی بجنے لگا بلکہ 1961 میں شکیل کو اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی اسی پر ملا۔

اس کے بعد مسلسل اگلے دو سال انھیں 'حسن والے ترا جواب نہیں،‘ اور ’کہیں دیپ جلے کہیں دل،‘ پر فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ حیرت انگیز طور پر انھیں نوشاد کی شراکت میں بنائے گئے کسی نغمے پر یہ اعزاز نہیں مل سکا۔

شکیل نے ایک سو سے زائد فلموں کے لیے گانے لکھے اور ان کے گانے بے حد مقبول ہوئے، ہر شخص کی زبان پر تھے ۔ آج بھی ان گانوں کو سن کر لوگ جھومنے لگتے ہیں۔

مغل اعظم کا گانا پیار کیا تو ڈرنا کیا، اے عشق یہ سب دنیا والے بے کار کی باتیں کرتے ہیں، ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی جیسے گانے کافی مقبول ہوئے۔

لیکن فلمی دنیا کی مصروفیت میں شکیل نے اپنے آپ کو بالکل ضم نہیں کر دیا تھا، وہ غزلیں بھی کہتے رہے اور ان کے 5 شعری مجموعے نغمۂ فردوس، صنم و حرم ، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں شائع ہوئے اور کلیات شکیل کی اشاعت بھی ان کی زندگی میں ہو گئی تھی۔

شکیل بدایونی کی غزلوں کے کچھ منتخب اشعار

*ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا*

*ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے*

‏‎‎جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل

مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

*‏‎وہی کارواں وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے*

*مگراپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں*

‏صد حیف کہ برباد ہوئے ہم تری خاطر

صد شکر کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا

*‏نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے*

*یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے*

‏میرا عزم اتنا بلند ہے ، کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں

مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

*‏کبھی یک بہ یک توجہ، کبھی دفعتاً تغافل*

*مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر*

‏ہم نے پایا ہےمحبت کا خمارِ ابدی

کیسےہوتےہیں وہ نشےکہ اُترجاتے ہیں

*‏اس کثرتِ غم پہ بھی مجھے حسرتِ غم ہے*

*جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں*

‏ستم نوازی پیہم ہے عشق کی فطرت

فضول حسن پہ تہمت لگائی جاتی ہے

*‏دُور ہوں لیکن بتا سکتا ہوں ان کی بزم میں*

*کیا ہوا ،کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے کو ہے*

‏ہو تو کمالِ ربطِ محبت کسی کے ساتھ

دل چیز کیا ہے دے دوں جاں بھی خوشی کے ساتھ

*‏اُنہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں*

*میں جو اُن سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے*

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر

پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

*بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں*

*ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں*

چاہئے خود پہ یقین کامل

حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی

*دنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں*

*چھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں*

دشمنوں کو ستم کا خوف نہیں

دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

*ہر دل میں چھپا ہے تیر کوئی ہر پاؤں میں ہے زنجیر کوئی*

*پوچھے کوئی ان سے غم کے مزے جو پیار کی باتیں کرتے ہیں*

جینے والے قضا سے ڈرتے ہیں

زہر پی کر دوا سے ڈرتے ہیں

*کیا اثر تھا جذبۂ خاموش میں*

*خود وہ کھچ کر آ گئے آغوش میں*

بے تعلق ترے آگے سے گزر جاتا ہے

یہ بھی اک حسن طلب ہے تیرے دیوانے کا

*تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو*

*آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ...!*

وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں

بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں

*غم حیات بھی آغوش حسن یار میں ہے*

*یہ وہ خزاں ہے جو ڈوبی ہوئی بہار میں ہے*

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.