ETV Bharat / bharat

امریکی جنگی جہاز قوانین کی خلاف ورزی کر کے بھارتی سمندری حدود میں داخل

author img

By

Published : Apr 10, 2021, 9:20 AM IST

Updated : Apr 10, 2021, 3:09 PM IST

سینیئر صحافی سنجیب کے آر بروہا لکھتے ہیں کہ امریکی بحریہ کے جنگی جہاز کا بدھ کے روز بغیر کسی اجازت کے بھارت کی سمندری حدود میں داخل ہونے کا عمل تعجب خیز ہے لیکن اس واقعہ کو عام کرنے اور بھارتی گھریلو سمندری قوانین کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرنے کی کوشش سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے باہمی تعلقات کتنے پانی میں ہیں۔

امریکی جنگی جہاز کا بھارتی آبی میں داخل ہونا بھارتی قوانین کی خلاف ورزی
امریکی جنگی جہاز کا بھارتی آبی میں داخل ہونا بھارتی قوانین کی خلاف ورزی

بھارت کی اجازت کے بغیر امریکہ کی گائیڈیڈ میزائل ڈسٹرائیر جان پال جونس بدھ کے روز بھارت کی سمندری حدود میں مشق کرتی ہوئی نظر آئی ہے۔ امریکی بحریہ کا جنگی جہاز لکشدیپ کے مغرب سے تقریباً 130 سمندری میل کے فاصلے پر بحیرہ عرب کی سرحد پر دیکھا گیا ہے جس کے بعد اب یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ کیا بھارت اور امریکہ کے مابین تعلقات اچھے ہیں یا پھر یہ کوئی نئے تنازع کی شروعات ہے۔

امریکہ کے اس جنگی جہاز کو اسی دن اسی طرح مالدیپ کی قوانین کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، امریکہ کا خاص طور پر اپنے دوست ممالک کے تئیں ایسا رویہ کئی سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔بھارت کو امریکہ کا ایک اہم 'اسٹریٹجک پارٹنر' سمجھا جاتا ہے۔ لکشدیپ جزیرے کے قریب یہ علاقہ بھارت کے خصوصی اقتصادی زون (ای ای زیڈ) کا حصہ سمجھا جاتا ہے جو بھارت کے ساحلی علاقے سے لے کر سمندر میں 200 سمندری میل تک پھیلا ہوا ہے۔

امریکی بحریہ کے ساتویں بیڑے کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی بحریہ کے جہاز نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھارت کی پیشگی اجازت لیے بغیر 'نیویگیشنل رائٹرس اور فریڈم' کا استعمال کرتے ہوئے خصوصی اقتصادی زون کے اندر مشق کی۔

بیان میں یہ کہا گیا کہ 'بھارت کے سمندری دعوؤں کو چیلینج کرتے ہوئے فریڈم آف نیویگیشن آپریشن ہمیں بین الاقوامی قانون میں طئے شدہ سمندری حقوق، آزادی اور جائز استعمال کرنے کا حق دیتا ہے۔ امریکی بحریہ کا یہ بیان یہ واضح کرتا ہے کہ یہ واقعہ نہ تو کوئی غلطی ہے اور نہ ہی کسی غلط فہمی کا نتیجہ۔

امریکی بحریہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی قواتین کے مطابق خصوصی اقتصادی زون میں قدم رکھنے سے پہلے پیشگی اجازت حاصل کرنا لازمی ہے لیکن بھارت کی یہ بات بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہیں ہے۔

بھارت کا ردعمل

اس واقعہ کے بعد بھارت کے وزرات خارجہ کی جانب سے جمعہ کی شام کو سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 'ای ای زیڈ میں ہوئے اس واقعہ کے حوالے سے ہم نے اپنے اعتراضات سفارتی طریقے سے امریکی حکومت تک پہنچا دئے ہیں۔'

اقوام متحدہ کنونشن میں بھارت کی حکومت کا بحریہ قانون کے حوالے سے یہ مؤقف ہے کہ کنونشن دوسرے ممالک کو خصوصی اقتصادی زون اور کانٹینینٹل شیلف میں فوجی مشقوں کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ خاص طور پر ساحلی ریاست کی رضامندی کے بغیر ہتھیاروں یا دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یو ایس ایس جان پال پر مستقل طور پر نظر رکھی جارہی ہے۔

بھارت کا یہ بیان نومبر 2019 میں بھارتی سمندری حدود انڈمان جزیرے میں بغیر اجازت داخل ہوئے چینی بحریہ کے تحقیقی جہاز شی یان 1 کو ہٹ جانے پر مجبور کرنے جیسے اقدام سے بالکل برعکس تھا۔

بھارتی بحریہ کے چیف ایڈمیرل کرمبیر سنگھ نے اس وقت کہا تھا کہ 'ہمارا موقف ہے کہ اگر آپ کو ہمارے خصوصی اقتصادی زون میں کام کرنا ہے تو اس کے لیے آپ کو ہماری اجازت لینی ہوگی۔'

حیرت کی بات یہ نہیں تھی کہ امریکہ نے قوانین کو توڑا ہے بلکہ اس واقعہ کو عوامی سطح پر یہ کہتے ہوئے عام کرنا کہ اس نے بھارت کے گھریلو سمندری قوانین کی بے دریغ خلاف ورزی کی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے جب امریکی بحریہ کا جنگی جہاز اس طرح بھارت کے آبی خطے میں داخل ہوا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکی بحریہ نے بحر ہند کے خطے میں 1 اکتوبر 2018 سے 30 ستمبر 2019 کے دوران "سمندر اور فضائی حدود کے حقوق، آزادیوں اور استعمال کے تحفظ کے لئے" ایک آپریشن انجام دیا تھا۔

اس معاملے پر سی ڈی ایس کا بیان

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی روز چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت نے قومی دارالحکومت میں ویویکانند انڈیا فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک پروگرام کے دوران ایک بیان دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ بھارت اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات ڈگمگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

کواڈ پلیٹفارم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے

صدر جو بائیڈن کی حالیہ پیشرفت اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو منظم طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کا حصہ ہوسکتی ہے جس میں بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل غیر رسمی گروپ '' کواڈری لیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ'' یا 'کواڈ' کی تشکیل کرنا بھی شامل تھا۔

ٹرمپ نے چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اور بھارت اور تائیوان میں فوجی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کواڈ کی تشکیل کی تھی۔ صدر بائیڈن نے یہ بات صاف طور پر واضح کردی ہے کہ وہ چین کو دوسرے محاذوں پر ایک مقابلے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ’کواڈ‘ کے ذریعے نہیں۔

12 مارچ کو ورچوئلی طور پر پہلی بار منعقد ہونے والے ’کواڈ‘ سمٹ کے فوراً بعد امریکی قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) جیک سلیوان نے وہائٹ ہاؤس میں واضح کیا تھا کہ “کواڈ فوجی اتحاد نہیں ہے اور نہیں ناٹو ہے۔ یہ اقتصادیات، ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تبدیلی اور سکیورٹی جیسے بنیادی مسائل پر ان چار جمہوری ممالک کو ایک گروپ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع دے گا۔

امریکی این ایس اے نے مزید کہا تھا کہ 'ہم یہ جانتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر سمندری حدود کا تحفظ کواڈ کے بنیادی ایجنڈے میں سے ہے۔ انسانیت، قدرتی آفات کے وقت امداد اور ہمارے فوج کا کام پہلے ہی اس ایجنڈے میں شامل ہے۔ ہم نیوگیشن کی آزادی سے لے کر وسیع پیمانے پر علاقائی سلامتی تک تمام چیزوں پر کام کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے نہ صرف رہنماؤں کی سطح پر بلکہ ورکنگ لیول پر بھی کام کرنا ہوگا'۔

لیکن ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ بھارت کے آبی حدود میں امریکی جنگی جہاز کا مداخلت کرنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے ہموار تعلقات میں اس سے کہیں زیادہ رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔

بھارت کی اجازت کے بغیر امریکہ کی گائیڈیڈ میزائل ڈسٹرائیر جان پال جونس بدھ کے روز بھارت کی سمندری حدود میں مشق کرتی ہوئی نظر آئی ہے۔ امریکی بحریہ کا جنگی جہاز لکشدیپ کے مغرب سے تقریباً 130 سمندری میل کے فاصلے پر بحیرہ عرب کی سرحد پر دیکھا گیا ہے جس کے بعد اب یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ کیا بھارت اور امریکہ کے مابین تعلقات اچھے ہیں یا پھر یہ کوئی نئے تنازع کی شروعات ہے۔

امریکہ کے اس جنگی جہاز کو اسی دن اسی طرح مالدیپ کی قوانین کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، امریکہ کا خاص طور پر اپنے دوست ممالک کے تئیں ایسا رویہ کئی سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔بھارت کو امریکہ کا ایک اہم 'اسٹریٹجک پارٹنر' سمجھا جاتا ہے۔ لکشدیپ جزیرے کے قریب یہ علاقہ بھارت کے خصوصی اقتصادی زون (ای ای زیڈ) کا حصہ سمجھا جاتا ہے جو بھارت کے ساحلی علاقے سے لے کر سمندر میں 200 سمندری میل تک پھیلا ہوا ہے۔

امریکی بحریہ کے ساتویں بیڑے کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی بحریہ کے جہاز نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھارت کی پیشگی اجازت لیے بغیر 'نیویگیشنل رائٹرس اور فریڈم' کا استعمال کرتے ہوئے خصوصی اقتصادی زون کے اندر مشق کی۔

بیان میں یہ کہا گیا کہ 'بھارت کے سمندری دعوؤں کو چیلینج کرتے ہوئے فریڈم آف نیویگیشن آپریشن ہمیں بین الاقوامی قانون میں طئے شدہ سمندری حقوق، آزادی اور جائز استعمال کرنے کا حق دیتا ہے۔ امریکی بحریہ کا یہ بیان یہ واضح کرتا ہے کہ یہ واقعہ نہ تو کوئی غلطی ہے اور نہ ہی کسی غلط فہمی کا نتیجہ۔

امریکی بحریہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی قواتین کے مطابق خصوصی اقتصادی زون میں قدم رکھنے سے پہلے پیشگی اجازت حاصل کرنا لازمی ہے لیکن بھارت کی یہ بات بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہیں ہے۔

بھارت کا ردعمل

اس واقعہ کے بعد بھارت کے وزرات خارجہ کی جانب سے جمعہ کی شام کو سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 'ای ای زیڈ میں ہوئے اس واقعہ کے حوالے سے ہم نے اپنے اعتراضات سفارتی طریقے سے امریکی حکومت تک پہنچا دئے ہیں۔'

اقوام متحدہ کنونشن میں بھارت کی حکومت کا بحریہ قانون کے حوالے سے یہ مؤقف ہے کہ کنونشن دوسرے ممالک کو خصوصی اقتصادی زون اور کانٹینینٹل شیلف میں فوجی مشقوں کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ خاص طور پر ساحلی ریاست کی رضامندی کے بغیر ہتھیاروں یا دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یو ایس ایس جان پال پر مستقل طور پر نظر رکھی جارہی ہے۔

بھارت کا یہ بیان نومبر 2019 میں بھارتی سمندری حدود انڈمان جزیرے میں بغیر اجازت داخل ہوئے چینی بحریہ کے تحقیقی جہاز شی یان 1 کو ہٹ جانے پر مجبور کرنے جیسے اقدام سے بالکل برعکس تھا۔

بھارتی بحریہ کے چیف ایڈمیرل کرمبیر سنگھ نے اس وقت کہا تھا کہ 'ہمارا موقف ہے کہ اگر آپ کو ہمارے خصوصی اقتصادی زون میں کام کرنا ہے تو اس کے لیے آپ کو ہماری اجازت لینی ہوگی۔'

حیرت کی بات یہ نہیں تھی کہ امریکہ نے قوانین کو توڑا ہے بلکہ اس واقعہ کو عوامی سطح پر یہ کہتے ہوئے عام کرنا کہ اس نے بھارت کے گھریلو سمندری قوانین کی بے دریغ خلاف ورزی کی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے جب امریکی بحریہ کا جنگی جہاز اس طرح بھارت کے آبی خطے میں داخل ہوا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکی بحریہ نے بحر ہند کے خطے میں 1 اکتوبر 2018 سے 30 ستمبر 2019 کے دوران "سمندر اور فضائی حدود کے حقوق، آزادیوں اور استعمال کے تحفظ کے لئے" ایک آپریشن انجام دیا تھا۔

اس معاملے پر سی ڈی ایس کا بیان

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی روز چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت نے قومی دارالحکومت میں ویویکانند انڈیا فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک پروگرام کے دوران ایک بیان دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ بھارت اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات ڈگمگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

کواڈ پلیٹفارم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے

صدر جو بائیڈن کی حالیہ پیشرفت اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو منظم طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کا حصہ ہوسکتی ہے جس میں بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل غیر رسمی گروپ '' کواڈری لیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ'' یا 'کواڈ' کی تشکیل کرنا بھی شامل تھا۔

ٹرمپ نے چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اور بھارت اور تائیوان میں فوجی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کواڈ کی تشکیل کی تھی۔ صدر بائیڈن نے یہ بات صاف طور پر واضح کردی ہے کہ وہ چین کو دوسرے محاذوں پر ایک مقابلے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ’کواڈ‘ کے ذریعے نہیں۔

12 مارچ کو ورچوئلی طور پر پہلی بار منعقد ہونے والے ’کواڈ‘ سمٹ کے فوراً بعد امریکی قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) جیک سلیوان نے وہائٹ ہاؤس میں واضح کیا تھا کہ “کواڈ فوجی اتحاد نہیں ہے اور نہیں ناٹو ہے۔ یہ اقتصادیات، ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تبدیلی اور سکیورٹی جیسے بنیادی مسائل پر ان چار جمہوری ممالک کو ایک گروپ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع دے گا۔

امریکی این ایس اے نے مزید کہا تھا کہ 'ہم یہ جانتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر سمندری حدود کا تحفظ کواڈ کے بنیادی ایجنڈے میں سے ہے۔ انسانیت، قدرتی آفات کے وقت امداد اور ہمارے فوج کا کام پہلے ہی اس ایجنڈے میں شامل ہے۔ ہم نیوگیشن کی آزادی سے لے کر وسیع پیمانے پر علاقائی سلامتی تک تمام چیزوں پر کام کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے نہ صرف رہنماؤں کی سطح پر بلکہ ورکنگ لیول پر بھی کام کرنا ہوگا'۔

لیکن ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ بھارت کے آبی حدود میں امریکی جنگی جہاز کا مداخلت کرنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے ہموار تعلقات میں اس سے کہیں زیادہ رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔

Last Updated : Apr 10, 2021, 3:09 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.