ETV Bharat / bharat

Slogan For Mulayam Singh جس کا جلوہ قائم ہے اس کا نام ملائم ہے

90 کی دہائی میں جب جے شری رام کے نعرے ایودھیا سمیت پورے ملک میں گونجتے تھے، تب ایک نعرہ کافی مقبول ہوا۔ وہ نعرہ تھا 'جس کا جلوہ قائم ہے، اس کا نام ملائم ہے'۔ یہ نعرہ آج بھی سماجوادی لیڈر ملائم سنگھ یادو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جانیے یہ نعرہ کیوں لگایا گیا؟ Slogan For Mulayam Singh

جس کا جلوہ قائم ہے، اس کا نام ملائم ہے
جس کا جلوہ قائم ہے، اس کا نام ملائم ہے
author img

By

Published : Oct 10, 2022, 12:10 PM IST

لکھنؤ: سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نہیں رہے۔ تین بار یوپی کے وزیراعلی رہنے والے ملائم سنگھ گزشتہ کئی سالوں سے سیاست میں سرگرم نہیں تھے، لیکن یہ نعرہ یوپی کے لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے۔ وہ نعرہ تھا 'جس کا جلوہ قائم ہے، اس کا نام ملائم ہے'۔ ملائم سنگھ کی اسی جلوے کی وجہ سے یوپی میں سوشلزم بھی طویل عرصے تک پروان چڑھا۔ ملائم سنگھ یادو کا یہ جلوہ یوں ہی قائم نہیں ہوا، اس کے پیچھے جدوجہد کی کہانی بہت لمبی ہے۔ jiska jalwa kayam hai uska naam mulayam hai

90 کی دہائی میں جب جے شری رام کے نعرے ایودھیا سمیت پورے ملک میں گونجتے تھے، تب ایک نعرہ مقبول ہوا۔ وہ نعرہ تھا 'جس کا جلوہ قائم ہے، اس کا نام ملائم ہے'۔ یہ نعرہ آج بھی سماجوادی لیڈر ملائم سنگھ یادو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جانیے یہ نعرہ کیوں لگایا گیا؟ 1989 میں جنتا دل کے رہنما کے طور پر وزیر اعلیٰ بننے والے ملائم سنگھ نے پہلی بار تخت سنبھالا۔ اس وقت ایودھیا میں رام مندر تحریک بھی اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ 24 جنوری 1991 تک ملائم سنگھ یادو نے بطور وزیر اعلیٰ اپنی پہلی اننگز مکمل کر لی تھی۔ اس کے بعد جنتا دل کنبہ ٹوٹنے لگا۔ تب بی جے پی نے کلیان سنگھ کی قیادت میں یوپی کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

6 دسمبر 1992 کو کار سیوکوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ جس کے بعد کلیان سنگھ نے استعفیٰ دے دیا اور اتر پردیش میں صدر راج نافذ کر دیا گیا۔ صدر راج کے ایک سال بعد دسمبر 1993 میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ کلیان سنگھ کی قیادت میں بی جے پی سیاسی حلقوں میں نظر آرہی تھی۔ توقع تھی کہ بابری مسجد کے انہدام کی وجہ سے ووٹر کلیان سنگھ کے ساتھ ہوں گے۔ پھر ملائم سنگھ یادو نے بڑا داؤ کھیلا اور بی ایس پی سے ہاتھ ملا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 4 دسمبر 1993 کو ملائم سنگھ یادو دوسری بار وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

یوپی کے تین بار وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیر دفاع رہنے والے ملائم سنگھ یادو کی سیاسی کامیابی کا جوہر ان کی کُشتی میں چھپا ہوا تھا۔ سیاسی رہنماؤں کے لیے پہلوان اور رہنما ملائم کی اگلی چال کے بارے میں اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔ میدان کی مٹی میں پرورش پانے والے ملائم سنگھ نے اپنے 'چرکھا' داؤ سے کئی سینیئرز کو شکست دی۔ واقعہ 1982 کا ہے، جب وی پی سنگھ وزیر اعلیٰ تھے تو ملائم پر جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ ملائم کی حفاظت کے لیے ان کے سیاسی سرپرست چرن سنگھ نے انہیں اپوزیشن کا لیڈر بنایا۔ 1987 میں چرن سنگھ کی سیاسی جانشینی کو لے کر ان کا اجیت سنگھ سے جھگڑا ہوا۔ اس سیاسی لڑائی میں اجیت سنگھ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ملائم یوپی میں متحدہ اپوزیشن کے رہنما بن چکے تھے۔

ملائم کی سیاسی چالبازی کے وجہ سے 1999 میں کانگریس حکومت بنانے سے محروم رہی اور سونیا گاندھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں۔ 1999 میں جے للیتا کی حمایت واپس لینے کے بعد، مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت اقلیت میں رہ گئی۔ اس کے بعد سونیا گاندھی نے 272 ارکان پارلیمنٹ کی حمایت سے کانگریس کی قیادت میں حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔ لیکن 1996 میں وزیر اعظم کا عہدہ کھو چکے ملائم سنگھ نے نئی حکومت کی حمایت کے لیے سی پی ایم لیڈر جیوتی باسو کو وزیر اعظم بنانے کی شرط رکھ دی۔ سونیا گاندھی قیادت چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئیں اور کانگریس کی حکومت نہیں بن سکی۔

واضح رہے کہ واضح رہے کہ سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو 22 نومبر 1939 کو اٹاوہ ضلع کے سیفائی گاؤں میں ایک کسان خاندان میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد کا نام سوگھر سنگھ یادو اور ماں کا نام مورتی دیوی ہے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں رتن سنگھ یادو سے چھوٹے تھے۔'

انہوں نے اپنے سفر کا آغاز ریسلنگ سے کیا، سیاست میں آنے سے پہلے ملائم سنگھ یادو انٹر کالج میں کچھ عرصے تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیا۔ ملائم سنگھ یادو سنہ 1967 میں پہلی بار اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد سے انہوں نے پیچھے موڑ کر نہیں دیکھا۔ سنہ 1977 میں پہلی بار اتر پردیش کی جنتا پارٹی حکومت میں وزیر مملکت بنے۔ ملائم، جو چرن سنگھ کے قریبی تھے سنہ 1980 میں لوک دل کے صدر بنے اور 1982 میں قانون ساز کونسل میں اپوزیشن کے لیڈر منتخب ہوئے۔ وہ سنہ 1989 میں جنتا دل کی جیت کے بعد پہلی بار یوپی کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سنہ 1992 میں انہوں نے سماج وادی پارٹی بنائی اور 1993 میں دوسری بار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سنہ 2003 میں وہ تیسری بار یوپی کے سی ایم بنے۔ سنہ 2004 میں انہوں نے گنور اسمبلی سیٹ پر ریکارڈ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

اپنے سیاسی کیریئر میں ملائم سنگھ یادو دس بار رکن اسمبلی اور سات بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ وہ سنہ 1982 سے 87 تک قانون ساز کونسل کے رکن رہے۔ ملائم سنگھ سنہ 1996 سے 1998 تک مرکزی حکومت میں وزیر دفاع رہے۔ انہوں نے پہلی بار سنہ 1996 میں مین پوری لوک سبھا سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مسلسل جیتتے رہے۔ سنہ 2019 میں وہ آخری بار مین پوری سیٹ سے کامیاب ہوئے۔

لکھنؤ: سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نہیں رہے۔ تین بار یوپی کے وزیراعلی رہنے والے ملائم سنگھ گزشتہ کئی سالوں سے سیاست میں سرگرم نہیں تھے، لیکن یہ نعرہ یوپی کے لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے۔ وہ نعرہ تھا 'جس کا جلوہ قائم ہے، اس کا نام ملائم ہے'۔ ملائم سنگھ کی اسی جلوے کی وجہ سے یوپی میں سوشلزم بھی طویل عرصے تک پروان چڑھا۔ ملائم سنگھ یادو کا یہ جلوہ یوں ہی قائم نہیں ہوا، اس کے پیچھے جدوجہد کی کہانی بہت لمبی ہے۔ jiska jalwa kayam hai uska naam mulayam hai

90 کی دہائی میں جب جے شری رام کے نعرے ایودھیا سمیت پورے ملک میں گونجتے تھے، تب ایک نعرہ مقبول ہوا۔ وہ نعرہ تھا 'جس کا جلوہ قائم ہے، اس کا نام ملائم ہے'۔ یہ نعرہ آج بھی سماجوادی لیڈر ملائم سنگھ یادو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جانیے یہ نعرہ کیوں لگایا گیا؟ 1989 میں جنتا دل کے رہنما کے طور پر وزیر اعلیٰ بننے والے ملائم سنگھ نے پہلی بار تخت سنبھالا۔ اس وقت ایودھیا میں رام مندر تحریک بھی اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ 24 جنوری 1991 تک ملائم سنگھ یادو نے بطور وزیر اعلیٰ اپنی پہلی اننگز مکمل کر لی تھی۔ اس کے بعد جنتا دل کنبہ ٹوٹنے لگا۔ تب بی جے پی نے کلیان سنگھ کی قیادت میں یوپی کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

6 دسمبر 1992 کو کار سیوکوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ جس کے بعد کلیان سنگھ نے استعفیٰ دے دیا اور اتر پردیش میں صدر راج نافذ کر دیا گیا۔ صدر راج کے ایک سال بعد دسمبر 1993 میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ کلیان سنگھ کی قیادت میں بی جے پی سیاسی حلقوں میں نظر آرہی تھی۔ توقع تھی کہ بابری مسجد کے انہدام کی وجہ سے ووٹر کلیان سنگھ کے ساتھ ہوں گے۔ پھر ملائم سنگھ یادو نے بڑا داؤ کھیلا اور بی ایس پی سے ہاتھ ملا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 4 دسمبر 1993 کو ملائم سنگھ یادو دوسری بار وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

یوپی کے تین بار وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیر دفاع رہنے والے ملائم سنگھ یادو کی سیاسی کامیابی کا جوہر ان کی کُشتی میں چھپا ہوا تھا۔ سیاسی رہنماؤں کے لیے پہلوان اور رہنما ملائم کی اگلی چال کے بارے میں اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔ میدان کی مٹی میں پرورش پانے والے ملائم سنگھ نے اپنے 'چرکھا' داؤ سے کئی سینیئرز کو شکست دی۔ واقعہ 1982 کا ہے، جب وی پی سنگھ وزیر اعلیٰ تھے تو ملائم پر جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ ملائم کی حفاظت کے لیے ان کے سیاسی سرپرست چرن سنگھ نے انہیں اپوزیشن کا لیڈر بنایا۔ 1987 میں چرن سنگھ کی سیاسی جانشینی کو لے کر ان کا اجیت سنگھ سے جھگڑا ہوا۔ اس سیاسی لڑائی میں اجیت سنگھ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ملائم یوپی میں متحدہ اپوزیشن کے رہنما بن چکے تھے۔

ملائم کی سیاسی چالبازی کے وجہ سے 1999 میں کانگریس حکومت بنانے سے محروم رہی اور سونیا گاندھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں۔ 1999 میں جے للیتا کی حمایت واپس لینے کے بعد، مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت اقلیت میں رہ گئی۔ اس کے بعد سونیا گاندھی نے 272 ارکان پارلیمنٹ کی حمایت سے کانگریس کی قیادت میں حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔ لیکن 1996 میں وزیر اعظم کا عہدہ کھو چکے ملائم سنگھ نے نئی حکومت کی حمایت کے لیے سی پی ایم لیڈر جیوتی باسو کو وزیر اعظم بنانے کی شرط رکھ دی۔ سونیا گاندھی قیادت چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئیں اور کانگریس کی حکومت نہیں بن سکی۔

واضح رہے کہ واضح رہے کہ سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو 22 نومبر 1939 کو اٹاوہ ضلع کے سیفائی گاؤں میں ایک کسان خاندان میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد کا نام سوگھر سنگھ یادو اور ماں کا نام مورتی دیوی ہے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں رتن سنگھ یادو سے چھوٹے تھے۔'

انہوں نے اپنے سفر کا آغاز ریسلنگ سے کیا، سیاست میں آنے سے پہلے ملائم سنگھ یادو انٹر کالج میں کچھ عرصے تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیا۔ ملائم سنگھ یادو سنہ 1967 میں پہلی بار اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد سے انہوں نے پیچھے موڑ کر نہیں دیکھا۔ سنہ 1977 میں پہلی بار اتر پردیش کی جنتا پارٹی حکومت میں وزیر مملکت بنے۔ ملائم، جو چرن سنگھ کے قریبی تھے سنہ 1980 میں لوک دل کے صدر بنے اور 1982 میں قانون ساز کونسل میں اپوزیشن کے لیڈر منتخب ہوئے۔ وہ سنہ 1989 میں جنتا دل کی جیت کے بعد پہلی بار یوپی کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سنہ 1992 میں انہوں نے سماج وادی پارٹی بنائی اور 1993 میں دوسری بار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سنہ 2003 میں وہ تیسری بار یوپی کے سی ایم بنے۔ سنہ 2004 میں انہوں نے گنور اسمبلی سیٹ پر ریکارڈ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

اپنے سیاسی کیریئر میں ملائم سنگھ یادو دس بار رکن اسمبلی اور سات بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ وہ سنہ 1982 سے 87 تک قانون ساز کونسل کے رکن رہے۔ ملائم سنگھ سنہ 1996 سے 1998 تک مرکزی حکومت میں وزیر دفاع رہے۔ انہوں نے پہلی بار سنہ 1996 میں مین پوری لوک سبھا سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مسلسل جیتتے رہے۔ سنہ 2019 میں وہ آخری بار مین پوری سیٹ سے کامیاب ہوئے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.