ETV Bharat / bharat

Surgical Strike چھ سال قبل آج ہی کے دن بھارتی فوج نے سرجیکل اسٹرائیک کی تھی - پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک

29 ستمبر 2016 کا دن بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہو کر شدت پسندوں کے کیمپوں کو تباہ کرنے کے اقدام کے گواہ کے طور پر تاریخ میں درج ہے۔ Indian Army Conducted Surgical Strike

Surgical Strike
بھارتی فوج کی سرجیکل اسٹرائیک
author img

By

Published : Sep 29, 2022, 12:35 PM IST

نئی دہلی: چھ سال قبل آج ہی کے دن بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور اس کے آس پاس مبینہ شدت پسندوں کے لانچ پیڈس کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔ یہ سرجیکل اسٹرائیک اڑی میں شدت پسندانہ حملے کے تقریباً 10 دن بعد کی گئی۔ جموں و کشمیر کے اڑی میں چار مبینہ عسکریت پسندوں نے فوج کے 12 بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر گرینیڈ سے حملہ کیا۔ اس حملے میں 18 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ Pakistan Occupied Kashmir

29 ستمبر 2016 کا دن بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہو کر شدت پسندوں کے کیمپوں کو تباہ کرنے کے اقدام کے گواہ کے طور پر تاریخ میں درج ہے۔ جہاں بھارت نے اس آپریشن کو کامیابی سے انجام دینے کا دعویٰ کیا تھا وہیں پاکستان نے ایسی کسی بھی کارروائی کی تردید کی تھی۔

جموں و کشمیر کے اڑی سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کے پاس بھارتی فوج کے مقامی ہیڈ کوارٹر پر حملے میں 18 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ Uri attack اسے بھارتی فوج پر ہونے والے سب سے بڑے حملوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ 18 ستمبر 2016 کو اڑی حملے میں سرحد پار کے شدت پسندوں کا ہاتھ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن اس بات کو ئی ثبوت نہیں ہے کہ آیا حملہ کی کی ایما پہ کیا کس تنظیم کی جانب سے کیا گیا تھا کیوں کہ کسی بھی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں تھی۔ وہیں دوسری جانب اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے 29 ستمبر کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔

28-29 اکتوبر 2016 کی رات کو یاد کرتے ہوئے تین سال بعد وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ 'تین سال پہلے اس وقت وہ پوری رات نہیں سوئے تھے اور اپنے فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ وہ رات تھی جب بھارتی فوج کے خصوصی دستوں نے سرجیکل اسٹرائیک کی۔ پی ایم نریندر مودی نے کہا تھا کہ یہ دن بھارت کے بہادر سپاہیوں کی فتح کا نشان ہے جنہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کی اور ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔

28 ستمبر 2016 کو بھارتی فوج نے شدت پسندی کے لانچ پیڈز پر حملے کرنے کے لیے اپنے 100 کے قریب خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز کو متحرک کیا۔ آپریشن کے لیے قطعی زمینی منصوبہ اُدھم پور میں فوج کی شمالی کمان نے نئی دہلی میں بھارت کے اعلیٰ فوجی حکام کا بتایا اور ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر حملے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

28-29 اکتوبر کی درمیانی شب سرحد پر پاکستانی فوج کو الجھائے رکھنے کے لیے فائرنگ کی شروعات کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھارتی فضائیہ نے اپنی مشقوں میں تیزی لائی تھی۔ جس کا مقصد پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا تھا کہ ہم فضائی کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔ 28 ستمبر کی رات بھارتی فوج کی فائرنگ کا سہارا لیتے ہوئے بھارتی فوج کی پیرا شوٹ رجمنٹ اسپیشل فورسز کے 100 خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز پاکستانی حدود میں داخل ہوئے۔ وہ اپنی مخصوص جنگی وردی کی وجہ سے ناہموار جنگلوں میں گھل مل گئے تھے اور ان کی شناخت مشکل تھی۔ ان کے چہرے مخصوص رنگ سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جسم کی بو کو دبانے کے لیے ان کی جلد کو مٹی کی ایک پتلی تہہ سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ خاص طور پر اس مشن کے لیے ان کے ہتھیاروں پر سیاہ رنگ کیا گیا تھا۔

یہ خطرناک کمانڈوز ساؤتھ بلاک کی پہلی منزل پر فوج کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ملٹری آپریشنز DGMO میں طویل غور و خوض کے بعد تیار کیے گئے منصوبے کا سب سے اہم حصہ تھے۔ بھارت کی فوجی قیادت وزیراعظم اور وزیر دفاع کے ساتھ بیٹھ کر اس ساری کارروائی کی نگرانی کر رہی تھی۔ جیسے ہی ان خطرناک کمانڈوز کو ہیڈ کوارٹر سے گرین سگنل ملا انہوں نے ایل او سی۔کارل گستاف راکٹ لانچرز، تھرموبیرک راکٹ، رائفلز پر کلپڈ بیرل گرینیڈ لانچرز، 'ملکور ملٹیپل گرینیڈ لانچرز اور پورٹیبل آرٹلری سے حملہ کیا جو بیک وقت 40 گرینیڈ فائر کر سکتے تھے۔

ایل او سی کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں واقع کیل، لیپا، اتھمکم، تتاپانی اور بھیمبر کے چھ لانچ پیڈز پر بیک وقت حملہ کیا گیا۔پیرا شوٹ رجمنٹ اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کے ہیلمٹ اور کندھوں پر لگے کیمرے بیس پر موجود افسران کو ان کی بہادری کو براہ راست نشر کر رہے تھے۔ انتقام اور حب الوطنی کے جذبے میں کمانڈوز اور ہتھیاروں کے لیے یہ صرف چند منٹوں کا کام تھا۔ 10 منٹ سے بھی کم وقت میں شدت پسندوں کے 6 ٹھکانے تاریخ کا حصہ بن گئے۔

ایک اہلکار نے بعد میں کہا تھا کہ 'یہ ایک تباہی کا مشن تھا۔ کمانڈوز نے چھوٹے ہتھیاروں سے اپنے اہداف کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی لاشیں گننے کی ضرورت رہنے دی۔ جو بھی ان ٹھکانوں میں تھا مار دیا گیا۔ ان کے ہتھیار صرف زیادہ سے زیادہ ساختی نقصان پہنچانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر روسی شیمیل کو اس کے مینوفیکچرر کی طرف سے فلیم تھروور (شعلہ پھینکنے والا) کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایندھن اور ہوا کے مرکب کو بھڑکاتا ہے جس کی وجہ سے ڈھانچے گر جاتے ہیں اور 155 ملی میٹر بوفورس شیل متاثر ہوتا ہے۔

نئی دہلی: چھ سال قبل آج ہی کے دن بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور اس کے آس پاس مبینہ شدت پسندوں کے لانچ پیڈس کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔ یہ سرجیکل اسٹرائیک اڑی میں شدت پسندانہ حملے کے تقریباً 10 دن بعد کی گئی۔ جموں و کشمیر کے اڑی میں چار مبینہ عسکریت پسندوں نے فوج کے 12 بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر گرینیڈ سے حملہ کیا۔ اس حملے میں 18 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ Pakistan Occupied Kashmir

29 ستمبر 2016 کا دن بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہو کر شدت پسندوں کے کیمپوں کو تباہ کرنے کے اقدام کے گواہ کے طور پر تاریخ میں درج ہے۔ جہاں بھارت نے اس آپریشن کو کامیابی سے انجام دینے کا دعویٰ کیا تھا وہیں پاکستان نے ایسی کسی بھی کارروائی کی تردید کی تھی۔

جموں و کشمیر کے اڑی سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کے پاس بھارتی فوج کے مقامی ہیڈ کوارٹر پر حملے میں 18 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ Uri attack اسے بھارتی فوج پر ہونے والے سب سے بڑے حملوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ 18 ستمبر 2016 کو اڑی حملے میں سرحد پار کے شدت پسندوں کا ہاتھ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن اس بات کو ئی ثبوت نہیں ہے کہ آیا حملہ کی کی ایما پہ کیا کس تنظیم کی جانب سے کیا گیا تھا کیوں کہ کسی بھی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں تھی۔ وہیں دوسری جانب اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے 29 ستمبر کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔

28-29 اکتوبر 2016 کی رات کو یاد کرتے ہوئے تین سال بعد وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ 'تین سال پہلے اس وقت وہ پوری رات نہیں سوئے تھے اور اپنے فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ وہ رات تھی جب بھارتی فوج کے خصوصی دستوں نے سرجیکل اسٹرائیک کی۔ پی ایم نریندر مودی نے کہا تھا کہ یہ دن بھارت کے بہادر سپاہیوں کی فتح کا نشان ہے جنہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کی اور ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔

28 ستمبر 2016 کو بھارتی فوج نے شدت پسندی کے لانچ پیڈز پر حملے کرنے کے لیے اپنے 100 کے قریب خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز کو متحرک کیا۔ آپریشن کے لیے قطعی زمینی منصوبہ اُدھم پور میں فوج کی شمالی کمان نے نئی دہلی میں بھارت کے اعلیٰ فوجی حکام کا بتایا اور ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر حملے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

28-29 اکتوبر کی درمیانی شب سرحد پر پاکستانی فوج کو الجھائے رکھنے کے لیے فائرنگ کی شروعات کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھارتی فضائیہ نے اپنی مشقوں میں تیزی لائی تھی۔ جس کا مقصد پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا تھا کہ ہم فضائی کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔ 28 ستمبر کی رات بھارتی فوج کی فائرنگ کا سہارا لیتے ہوئے بھارتی فوج کی پیرا شوٹ رجمنٹ اسپیشل فورسز کے 100 خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز پاکستانی حدود میں داخل ہوئے۔ وہ اپنی مخصوص جنگی وردی کی وجہ سے ناہموار جنگلوں میں گھل مل گئے تھے اور ان کی شناخت مشکل تھی۔ ان کے چہرے مخصوص رنگ سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جسم کی بو کو دبانے کے لیے ان کی جلد کو مٹی کی ایک پتلی تہہ سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ خاص طور پر اس مشن کے لیے ان کے ہتھیاروں پر سیاہ رنگ کیا گیا تھا۔

یہ خطرناک کمانڈوز ساؤتھ بلاک کی پہلی منزل پر فوج کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ملٹری آپریشنز DGMO میں طویل غور و خوض کے بعد تیار کیے گئے منصوبے کا سب سے اہم حصہ تھے۔ بھارت کی فوجی قیادت وزیراعظم اور وزیر دفاع کے ساتھ بیٹھ کر اس ساری کارروائی کی نگرانی کر رہی تھی۔ جیسے ہی ان خطرناک کمانڈوز کو ہیڈ کوارٹر سے گرین سگنل ملا انہوں نے ایل او سی۔کارل گستاف راکٹ لانچرز، تھرموبیرک راکٹ، رائفلز پر کلپڈ بیرل گرینیڈ لانچرز، 'ملکور ملٹیپل گرینیڈ لانچرز اور پورٹیبل آرٹلری سے حملہ کیا جو بیک وقت 40 گرینیڈ فائر کر سکتے تھے۔

ایل او سی کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں واقع کیل، لیپا، اتھمکم، تتاپانی اور بھیمبر کے چھ لانچ پیڈز پر بیک وقت حملہ کیا گیا۔پیرا شوٹ رجمنٹ اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کے ہیلمٹ اور کندھوں پر لگے کیمرے بیس پر موجود افسران کو ان کی بہادری کو براہ راست نشر کر رہے تھے۔ انتقام اور حب الوطنی کے جذبے میں کمانڈوز اور ہتھیاروں کے لیے یہ صرف چند منٹوں کا کام تھا۔ 10 منٹ سے بھی کم وقت میں شدت پسندوں کے 6 ٹھکانے تاریخ کا حصہ بن گئے۔

ایک اہلکار نے بعد میں کہا تھا کہ 'یہ ایک تباہی کا مشن تھا۔ کمانڈوز نے چھوٹے ہتھیاروں سے اپنے اہداف کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی لاشیں گننے کی ضرورت رہنے دی۔ جو بھی ان ٹھکانوں میں تھا مار دیا گیا۔ ان کے ہتھیار صرف زیادہ سے زیادہ ساختی نقصان پہنچانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر روسی شیمیل کو اس کے مینوفیکچرر کی طرف سے فلیم تھروور (شعلہ پھینکنے والا) کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایندھن اور ہوا کے مرکب کو بھڑکاتا ہے جس کی وجہ سے ڈھانچے گر جاتے ہیں اور 155 ملی میٹر بوفورس شیل متاثر ہوتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.