شیوسینا نے اپنے مراٹھی اخبار 'سامنا' میں لکھا کہ ایک طرف سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کے خلاف بولنا غدار وطن نہیں ہے جبکہ دوسری جانب حکومت کے خلاف بولنے والے اداکاروں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔
فلمی دنیا کے پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں پر انکم ٹیکس کے چھاپے شروع ہوگئے ہیں۔ ان میں تاپسی پنوں، انوراگ کشیپ، وکاس بہل اور وترک مدھو منٹینا کا نام شام ہے۔
سامنا نے لکھا ہے کہ ممبئی اور پونے میں 30 سے زیادہ مقامات پر چھاپے مارے گئے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تپسی پنو اور انوراگ کشیپ کے علاوہ ہندی سینا دنیا کا طرز عمل اور کام صاف و شفاف ہے۔ سینا دنیا کے بہت سارے فنکاروں نے زرعی قوانین کے خلاف جاری کسانوں کے احتجاج سے متعلق ایک عجیب و غریب کردار ادا کیا، انہوں نے کسانوں کی حمایت نہیں کی بلکہ اس کے برعکس وہ لوگ جو پوری دنیا سے کسانوں کی حمایت کر رہے ہیں، انکو ملک مخالف قرار دیا جبکہ تاپسی پنو اور انوراگ کشیپ کو کسانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لئے اسکی قیمت ادا کرنی پڑی۔
دراصل سنہ 2011 میں ایک لین دین ہوا تھا، جس کو پیش نظر رکھ کر یہ چھاپے مارے جا رہے ہیں، ان لوگوں نے ایک پروڈکشن ہاؤس قائم کیا تھا جس کے ٹیکس سے متعلق یہ معاملہ ہے۔ حکومت کی اس کارروائی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہیں نا کہیں کچھ غلط ہے لیکن یہ کارروائی صرف ان دونوں کے خلاف ہی کیوں کی جا رہی ہے؟
سامنا نے لکھا ہے کہ بالی ووڈ میں روزانہ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، کیا وہ پیسے گنگا پانی کے بہاؤ کے ساتھ آتے ہیں؟ جب حکومت اس کے خلاف شکنجہ کستی ہے تو یہ لوگ حکومت کے اشارے پر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سامنا نے لکھا ہے کہ وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر نے بی جے پی اور مرکزی حکومت کی پالیسی پر تبصرہ کرنے کی وجہ سے کارروائی کرنے کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ جاوڈیکر بتایا کہ تفتیشی ایجنسیوں کو آنے والی تصدیق شدہ خبروں کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ بالی ووڈ کے صحیح اور غلط کاموں کے بارے میں عوام کو معلوم نہیں ہے؟ جانچ ایجنسیوں کے پاس صرف ان ہی تین چار افراد کے بارے معلومات ہیں؟
سامنا نے لکھا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پنک، تپڑ اور بدلہ جیسی فلموں میں تپسی کی مضبوط اداکاری کو دیکھا ہوگا وہ یہ نہیں پوچھیں گے کہ تپسی اتنے بے وقوف کیوں ہیں؟ انوراگ کشیپ کے بارے میں بھی یہی کہنا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ آپ انکے خیالات سے متفق نہ ہوں، لیکن انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا مکمل حق ہے۔
جب دیپیکا پڈوکون جے این یو میں طلبہ سے ملاقات کرنے گئی تھیں تو ان کے خلاف بھی بائیکاٹ کی تحریک چلائی گی تھی، دیپیکا کی فلم کو منصوبہ بند طریقے سے فلاپ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے خلاف ایک گندی مہم بھی سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔ یہ کون لوگ ہیں یا کس نظریہ کے حامل ہیں اس چھوڑ دو لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ایسے کام کرکے وہ ملک کا وقار نہیں بڑھا رہے ہیں۔
فی الحال ملک میں ہر طرف آزادی کو ختم کرنے کی تحریک چل رہی ہے جس نے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے منصفانہ کام کی آزادی کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ تاپسی اور انوراگ کے معاملے میں یہی ہوا ہے۔