ETV Bharat / bharat

Shimla Agreement: جانیے شملہ معاہدہ کب اور کیسے ہوا؟

سنہ 1971 میں جنگ ہارنے کے بعد جب پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو احساس ہوا کہ اب انہیں ملک میں بھاری مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، تو انہوں نے بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو مذاکرات اور معاہدے کا پیغام بھیجا۔ بھارت نے بھی اس معاملے کو آگے بڑھایا اور سنہ 1972 میں 28 جون سے 2 جولائی کے درمیان شملہ میں سربراہی اجلاس طے ہوا۔ 25 جنوری 1971 کو ہماچل کو مکمل ریاست حاصل ہوئی۔ ڈیڑھ سال کے بعد ہماچل کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کی سرزمین پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا ہے۔

جانیئے شملہ معاہدہ کب اور کیسے ہوا؟
جانیئے شملہ معاہدہ کب اور کیسے ہوا؟
author img

By

Published : Jul 2, 2021, 11:06 AM IST

آزاد بھارت کی تاریخ میں سنہ 1971 کے بھارت۔ پاکستان شملہ معاہدہ (Indo Pak Shimla Agreement) کا اہم مقام حاصل ہے۔ برطانوی دور حکومت میں تاریخی شہر شملہ بھارت کا موسم گرما کا دارالحکومت تھا۔ آزادی کے بعد بھی شملہ شہر کی اہمیت بہت زیادہ رہی۔ اس کا ثبوت شملہ معاہدہ ہے۔ 1971 کی جنگ کے دوران جب بھارت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تھا تو بھارت کی وزیر اعظم آئرن لیڈی اندرا گاندھی تھیں۔ اس کے بعد پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شملہ معاہدہ ہوا۔

شملہ کے راج بھون میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے وہ آج بھی لوگوں کے تجسس کا مرکز ہے۔ ہماچل راج بھون کی عمارت کا نام بارنیس کورٹ ہے۔ اب اسے راج بھون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہیں پر اندرا اور بھٹو کے مابین شملہ معاہدہ ہوا تھا۔

سنہ 1971 میں جنگ ہارنے کے بعد جب پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ احساس ہو گیا کہ اب انہیں ملک میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، تو انہوں نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو مذاکرات اور معاہدے کا پیغام بھیجا۔ بھارت نے بھی اس معاملے کو آگے بڑھایا اور 1972 میں 28 جون اور 2 جولائی کے درمیان شملہ میں سربراہی اجلاس طے ہوا۔ 25 جنوری 1971 کو ہماچل کو مکمل ریاست حاصل ہوئی۔ ڈیڑھ سال کے بعد ہماچل کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کی سرزمین پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا ہے۔

پاکستانی وفد اپنے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ معاہدے کے لئے شملہ پہنچا۔ اندرا گاندھی پہلے ہی شملہ میں تھیں۔ شملہ میں اس وقت کے میڈیا کارکن پرکاش چندر لوہومی کے پاس شملہ معاہدے کی بہت سی یادیں ہیں۔ وہ میڈیا کوریج کے لئے شملہ میں تھے۔ لوہومی ایک سینیئر صحافی ہیں۔ بھارت نے معاہدے کے لئے کچھ شرائط پاکستان کے سامنے رکھی تھیں۔ پاکستان کو کچھ اعتراضات تھے، لیکن اندرا گاندھی صرف آئرن لیڈی نہیں تھیں۔ انہوں نے پاکستان کو جھکادیا۔ جنگ میں کراری شکست کا سامنا کرنے کے بعد معاہدے کی میز پر پاکستان کی یہ دوسری شکست تھی۔

شملہ کے سینیئر صحافی پی سی لوہومی اور رویندر رانادیو (رندیو کا حال ہی میں انتقال ہوگیا) اس معاہدے کے بارے میں بہت سی باتیں بتاتے تھے۔ یہ ہوا کہ معاہدے سے پہلے معاملات اور خراب ہوگئے۔ یہ طے پاگیا تھا کہ پاکستان کا وفد واپس جائے گا، لیکن اندرا کی سفارتکاری کارگر ہوگئی۔ 2 جولائی 1972 سے پہلے، پاکستان کے لئے الوداعی ضیافت منعقد کی گئی تھی۔ توقع کی جارہی تھی کہ شاید کچھ کام ہوجائے گا، لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو، وہاں موجود میڈیا سمیت بیشتر عہدیداروں نے سامان بھی باندھ لیا تھا۔

صحافی پرکاش چندر لوہومی نے بتایا تھا کہ سب اپنا سامان باندھ کر جانے کی تیاری میں تھے۔ اچانک انہیں راج بھون سے ایک میسج موصول ہوا۔ اتوار رات کے ساڑھے نو بجے تھے۔ لوہومی بتاتے ہیں کہ جب وہ راج بھون پہنچے تو اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹّو آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی بات چیت میں فیصلہ کیا گیا کہ معاہدہ ہوگا اور ابھی ہوگا۔ معاہدے کے کاغذات جلد بازی میں تیار کیے گئے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین شملہ معاہدہ رات 12 بج کر 40 منٹ پر ہوا تھا۔ معاہدے کے فوراً بعد ہی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی وہاں سے خود دستاویزات لے کر چلی گئیں۔ اندرا گاندھی اس وقت مشوبرہ کے ریٹریٹ میں مقیم تھیں۔

ریٹریٹ اب صدارتی رہائش گاہ ہے۔ معاہدے کے بعد شکست کھانے والے بھٹو ہماچل بھون یعنی موجودہ راج بھون میں ہی رہے۔ صبح ہوتے ہی اندرا انھیں روانہ کرنے کے لئے ہیلی پیڈ پہنچی، لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان کچھ خاص بات چیت نہیں ہوئی۔

سینیئر میڈیا پرسن پرکاش چندر لوہومی کا کہنا ہے کہ سب کچھ غیر متوقع تھا۔ اس میز پر کوئی کپڑا نہیں تھا جس پر راج بھون میں دستخط ہونے تھے۔ صرف یہی نہیں اس وقت اندرا اور بھٹو کے پاس پین تک نہیں تھا۔ تب صرف میڈیا نے پین دیا۔ کہا جاتا ہے کہ دستاویزات پر بھی مہر نہیں لگائی گئی تھی۔ بعد میں دستخط کیے گئے۔

تب آج کی طرح میڈیا چینل نہیں ہوا کرتے تھے۔ سرکاری دور درشن کی ٹیم بھی دیر سے پہنچی تھی۔ معاہدے کے مطابق پاکستان کی طرف سے یہ لکھا گیا تھا کہ دونوں ممالک 17 دسمبر 1971 کے حالات کے مطابق اپنی جگہ پر رہیں گے اور اسی کو ایل او سی سمجھا جائے گا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان سے یہ لکھنے کے بعد یہ بھی لکھ دیا تھا کہ مستقبل میں دونوں ممالک بغیر کسی ثالثی کے مل جُل کر اپنے تنازعات کا حل کریں گے۔

شملا معاہدہ کن شرائط پر تھا؟

  • پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک الگ ملک کے طور پر تسلیم کیا
  • لائن آف کنٹرول کو 17 ستمبر 1971 کی سیز فائر لائن کو تسلیم کرنا
  • 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدی (فوجی) رہا ہوئے
  • راست مذاکرات میں ثالث یا تیسرے فریق کے نہ ہونے پر رضامندی
  • جنگ میں حاصل کی گئی زمین بھی بھارت نے پاکستان کو واپس کردی

یہ بھی پڑھیں: حیوانیت کی تمام حدیں پار، بارہ سالہ معصوم بچی نذر آتش

بھارت اور پاکستان کے عوام کی سہولت کے لئے نقل و حمل کے ذرائع تیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ شملہ معاہدے کے مطابق مستقبل میں دونوں ممالک بغیر کسی ثالثی کے ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے تنازعات سلجھائیں گے، جس میں تیسرا فریق ملوث نہیں ہوگا۔ اس طرح اندرا کے قد اور سفارت کاری کی وجہ سے شملہ معاہدہ ہوا اور پاکستان گھٹنوں کے بل جھک گیا۔ مجموعی طور پر اندرا کی سفارت کاری کی وجہ سے شملہ میں پاکستان کو دوسری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

آزاد بھارت کی تاریخ میں سنہ 1971 کے بھارت۔ پاکستان شملہ معاہدہ (Indo Pak Shimla Agreement) کا اہم مقام حاصل ہے۔ برطانوی دور حکومت میں تاریخی شہر شملہ بھارت کا موسم گرما کا دارالحکومت تھا۔ آزادی کے بعد بھی شملہ شہر کی اہمیت بہت زیادہ رہی۔ اس کا ثبوت شملہ معاہدہ ہے۔ 1971 کی جنگ کے دوران جب بھارت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تھا تو بھارت کی وزیر اعظم آئرن لیڈی اندرا گاندھی تھیں۔ اس کے بعد پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شملہ معاہدہ ہوا۔

شملہ کے راج بھون میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے وہ آج بھی لوگوں کے تجسس کا مرکز ہے۔ ہماچل راج بھون کی عمارت کا نام بارنیس کورٹ ہے۔ اب اسے راج بھون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہیں پر اندرا اور بھٹو کے مابین شملہ معاہدہ ہوا تھا۔

سنہ 1971 میں جنگ ہارنے کے بعد جب پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ احساس ہو گیا کہ اب انہیں ملک میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، تو انہوں نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو مذاکرات اور معاہدے کا پیغام بھیجا۔ بھارت نے بھی اس معاملے کو آگے بڑھایا اور 1972 میں 28 جون اور 2 جولائی کے درمیان شملہ میں سربراہی اجلاس طے ہوا۔ 25 جنوری 1971 کو ہماچل کو مکمل ریاست حاصل ہوئی۔ ڈیڑھ سال کے بعد ہماچل کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کی سرزمین پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا ہے۔

پاکستانی وفد اپنے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ معاہدے کے لئے شملہ پہنچا۔ اندرا گاندھی پہلے ہی شملہ میں تھیں۔ شملہ میں اس وقت کے میڈیا کارکن پرکاش چندر لوہومی کے پاس شملہ معاہدے کی بہت سی یادیں ہیں۔ وہ میڈیا کوریج کے لئے شملہ میں تھے۔ لوہومی ایک سینیئر صحافی ہیں۔ بھارت نے معاہدے کے لئے کچھ شرائط پاکستان کے سامنے رکھی تھیں۔ پاکستان کو کچھ اعتراضات تھے، لیکن اندرا گاندھی صرف آئرن لیڈی نہیں تھیں۔ انہوں نے پاکستان کو جھکادیا۔ جنگ میں کراری شکست کا سامنا کرنے کے بعد معاہدے کی میز پر پاکستان کی یہ دوسری شکست تھی۔

شملہ کے سینیئر صحافی پی سی لوہومی اور رویندر رانادیو (رندیو کا حال ہی میں انتقال ہوگیا) اس معاہدے کے بارے میں بہت سی باتیں بتاتے تھے۔ یہ ہوا کہ معاہدے سے پہلے معاملات اور خراب ہوگئے۔ یہ طے پاگیا تھا کہ پاکستان کا وفد واپس جائے گا، لیکن اندرا کی سفارتکاری کارگر ہوگئی۔ 2 جولائی 1972 سے پہلے، پاکستان کے لئے الوداعی ضیافت منعقد کی گئی تھی۔ توقع کی جارہی تھی کہ شاید کچھ کام ہوجائے گا، لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو، وہاں موجود میڈیا سمیت بیشتر عہدیداروں نے سامان بھی باندھ لیا تھا۔

صحافی پرکاش چندر لوہومی نے بتایا تھا کہ سب اپنا سامان باندھ کر جانے کی تیاری میں تھے۔ اچانک انہیں راج بھون سے ایک میسج موصول ہوا۔ اتوار رات کے ساڑھے نو بجے تھے۔ لوہومی بتاتے ہیں کہ جب وہ راج بھون پہنچے تو اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹّو آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی بات چیت میں فیصلہ کیا گیا کہ معاہدہ ہوگا اور ابھی ہوگا۔ معاہدے کے کاغذات جلد بازی میں تیار کیے گئے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین شملہ معاہدہ رات 12 بج کر 40 منٹ پر ہوا تھا۔ معاہدے کے فوراً بعد ہی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی وہاں سے خود دستاویزات لے کر چلی گئیں۔ اندرا گاندھی اس وقت مشوبرہ کے ریٹریٹ میں مقیم تھیں۔

ریٹریٹ اب صدارتی رہائش گاہ ہے۔ معاہدے کے بعد شکست کھانے والے بھٹو ہماچل بھون یعنی موجودہ راج بھون میں ہی رہے۔ صبح ہوتے ہی اندرا انھیں روانہ کرنے کے لئے ہیلی پیڈ پہنچی، لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان کچھ خاص بات چیت نہیں ہوئی۔

سینیئر میڈیا پرسن پرکاش چندر لوہومی کا کہنا ہے کہ سب کچھ غیر متوقع تھا۔ اس میز پر کوئی کپڑا نہیں تھا جس پر راج بھون میں دستخط ہونے تھے۔ صرف یہی نہیں اس وقت اندرا اور بھٹو کے پاس پین تک نہیں تھا۔ تب صرف میڈیا نے پین دیا۔ کہا جاتا ہے کہ دستاویزات پر بھی مہر نہیں لگائی گئی تھی۔ بعد میں دستخط کیے گئے۔

تب آج کی طرح میڈیا چینل نہیں ہوا کرتے تھے۔ سرکاری دور درشن کی ٹیم بھی دیر سے پہنچی تھی۔ معاہدے کے مطابق پاکستان کی طرف سے یہ لکھا گیا تھا کہ دونوں ممالک 17 دسمبر 1971 کے حالات کے مطابق اپنی جگہ پر رہیں گے اور اسی کو ایل او سی سمجھا جائے گا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان سے یہ لکھنے کے بعد یہ بھی لکھ دیا تھا کہ مستقبل میں دونوں ممالک بغیر کسی ثالثی کے مل جُل کر اپنے تنازعات کا حل کریں گے۔

شملا معاہدہ کن شرائط پر تھا؟

  • پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک الگ ملک کے طور پر تسلیم کیا
  • لائن آف کنٹرول کو 17 ستمبر 1971 کی سیز فائر لائن کو تسلیم کرنا
  • 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدی (فوجی) رہا ہوئے
  • راست مذاکرات میں ثالث یا تیسرے فریق کے نہ ہونے پر رضامندی
  • جنگ میں حاصل کی گئی زمین بھی بھارت نے پاکستان کو واپس کردی

یہ بھی پڑھیں: حیوانیت کی تمام حدیں پار، بارہ سالہ معصوم بچی نذر آتش

بھارت اور پاکستان کے عوام کی سہولت کے لئے نقل و حمل کے ذرائع تیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ شملہ معاہدے کے مطابق مستقبل میں دونوں ممالک بغیر کسی ثالثی کے ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے تنازعات سلجھائیں گے، جس میں تیسرا فریق ملوث نہیں ہوگا۔ اس طرح اندرا کے قد اور سفارت کاری کی وجہ سے شملہ معاہدہ ہوا اور پاکستان گھٹنوں کے بل جھک گیا۔ مجموعی طور پر اندرا کی سفارت کاری کی وجہ سے شملہ میں پاکستان کو دوسری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.