ETV Bharat / bharat

پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

معروف محقق نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا آج الہ آباد میں انتقال ہوگیا ہے وہ گزشتہ ہفتوں سے علیل تھے۔

معروف محقق نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا آج الہ آباد میں انتقال ہوگیا ہے وہ گزشتہ ہفتوں سے علیل تھے
معروف محقق نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا آج الہ آباد میں انتقال ہوگیا ہے وہ گزشتہ ہفتوں سے علیل تھے
author img

By

Published : Dec 25, 2020, 1:14 PM IST

Updated : Dec 25, 2020, 1:39 PM IST

تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف 'شب خون' کے مدیر معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی 85 برس کے تھے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے آج صبح 11:30 بجے الہ آباد کے ایک ہسپتال میں آخری سانس لی۔

واضح رہے کہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی 15 جنوری سنہ 1935 کو اتردیش کے ضلع پرتاب گڑھ میں پیدا ہوئے۔

الہ آباد یونیورسٹی سے سنہ 1953 میں انگریزی میں ایم اے کیا، علم وفضل کی قدیم روایت باپ اور ماں دونوں سے ورثے میں ملی۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

ذریعہ معاش کے لیے حکومت ہند میں طویل عرصے ملازمت کی۔ یہ شاعر کے علاوہ افسانہ نگار، نقاد اور محقق تھے۔

واضح رہے کہ رسالہ 'شب خون' الہ آباد سے نکلتا رہا، اور شمس الرحمٰن فاروقی اس کے مدیر تھے۔

شمس الرحمٰن فاروقی اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق تھے جنہوں نے تنقید نگاری سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔

انہوں نے الہ آباد سے 'شب خون' کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔

فاروقی نے شاعری کی، پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہوگئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوا تو 'شب خون' میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔

معروف محقق نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا آج الہ آباد میں انتقال ہوگیا ہے وہ گزشتہ ہفتوں سے علیل تھے
معروف محقق نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا آج الہ آباد میں انتقال ہوگیا ہے وہ گزشتہ ہفتوں سے علیل تھے

کچھ برس قبل انہوں نے ایک ناول لکھا، 'کئی چاند تھے سرِ آسماں' جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔

غرض یہ کہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

انہوں نے چالیس برس تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ 'شب خون' کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔

شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔

خدائے سخن میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب 'شعر شور انگیز' جوچار جلدوں میں ہے، کئی بار چھپ چکی ہے اور اس کو سنہ 1996 میں سرسوتی سمّان ملا جو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی نے تنقید، شاعری، فکشن، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ، یعنی ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیے ہیں۔

انہیں متعدد اعزاز و اکرام مل چکے ہیں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ڈی لٹ بھی شامل ہے اس کے علاوہ انہیں سنہ 2009 میں پدم شری ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔

شمس الرحمٰن فاروقی کی چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

گنج سوختہ، سبز اندرسبز، چارسمت کا دریا، آسماں محراب، شعری مجموعہ، سوار اوردوسرے افسانے، افسانے کی حمایت میں، لفظ ومعنی، فاروقی کے تبصرے، شعر شور انگیز، عروض، آہنگ اور بیان، اردو غزل کے اہم موڑ، کئی چاند تھے سر آسماں وغیرہ ہیں۔

تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف 'شب خون' کے مدیر معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی 85 برس کے تھے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے آج صبح 11:30 بجے الہ آباد کے ایک ہسپتال میں آخری سانس لی۔

واضح رہے کہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی 15 جنوری سنہ 1935 کو اتردیش کے ضلع پرتاب گڑھ میں پیدا ہوئے۔

الہ آباد یونیورسٹی سے سنہ 1953 میں انگریزی میں ایم اے کیا، علم وفضل کی قدیم روایت باپ اور ماں دونوں سے ورثے میں ملی۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

ذریعہ معاش کے لیے حکومت ہند میں طویل عرصے ملازمت کی۔ یہ شاعر کے علاوہ افسانہ نگار، نقاد اور محقق تھے۔

واضح رہے کہ رسالہ 'شب خون' الہ آباد سے نکلتا رہا، اور شمس الرحمٰن فاروقی اس کے مدیر تھے۔

شمس الرحمٰن فاروقی اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق تھے جنہوں نے تنقید نگاری سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔

انہوں نے الہ آباد سے 'شب خون' کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔

فاروقی نے شاعری کی، پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہوگئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوا تو 'شب خون' میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔

معروف محقق نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا آج الہ آباد میں انتقال ہوگیا ہے وہ گزشتہ ہفتوں سے علیل تھے
معروف محقق نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کا آج الہ آباد میں انتقال ہوگیا ہے وہ گزشتہ ہفتوں سے علیل تھے

کچھ برس قبل انہوں نے ایک ناول لکھا، 'کئی چاند تھے سرِ آسماں' جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔

غرض یہ کہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

انہوں نے چالیس برس تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ 'شب خون' کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔

شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔

خدائے سخن میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب 'شعر شور انگیز' جوچار جلدوں میں ہے، کئی بار چھپ چکی ہے اور اس کو سنہ 1996 میں سرسوتی سمّان ملا جو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی نے تنقید، شاعری، فکشن، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ، یعنی ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیے ہیں۔

انہیں متعدد اعزاز و اکرام مل چکے ہیں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ڈی لٹ بھی شامل ہے اس کے علاوہ انہیں سنہ 2009 میں پدم شری ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔

شمس الرحمٰن فاروقی کی چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

گنج سوختہ، سبز اندرسبز، چارسمت کا دریا، آسماں محراب، شعری مجموعہ، سوار اوردوسرے افسانے، افسانے کی حمایت میں، لفظ ومعنی، فاروقی کے تبصرے، شعر شور انگیز، عروض، آہنگ اور بیان، اردو غزل کے اہم موڑ، کئی چاند تھے سر آسماں وغیرہ ہیں۔

Last Updated : Dec 25, 2020, 1:39 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.