امریکہ کے سات بااثر قانون سازوں کے ایک گروپ نے بھارت میں کسانوں کے احتجاج پر سیکریٹری آف اسٹیٹ (وزیر خارجہ) مائک پومپیو کو خط لکھا ہے۔
اپنے خط میں ان قانون سازوں نے کہا کہ امریکہ بطور قوم جو سیاسی مظاہروں سے واقف ہے، وہ اپنی موجودہ معاشرتی بدحالی کے دور میں بھارت کو مشورہ دے سکتا ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس کی خاتون پریملا جے پال سمیت سات بااثر امریکی قانون سازوں کے ایک گروپ نے سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو کو یہ خط لکھا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ بھارت میں کسانوں کے احتجاج کا معاملہ اٹھائے۔
- 'غیر متعلق' اور 'غیرضروری'
اس کے رد عمل میں بھارت نے غیر ملکی رہنماؤں اور سیاستدانوں کی طرف سے کسانوں کے احتجاج پر ہونے والے ریمارکس کو 'غیر متعلق' اور 'غیرضروری' قرار دیا ہے اور زور دے کر کہا ہے کہ یہ معاملہ ایک جمہوری ملک کے اندرونی معاملات سے متعلق ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے رواں ماہ کے شروع میں کہا کہ 'ہم نے بھارت میں کسانوں سے متعلق کچھ غیرجانبدار تبصرے دیکھے ہیں۔ اس طرح کے تبصرے غیر یقینی ہیں، خاص کر جب کسی جمہوری ملک کے داخلی امور سے متعلق ہوں'۔
- تشویش کا باعث:
قانون سازوں نے 23 دسمبر 2020 کو پومپیو کو اپنے خط میں کہا کہ 'یہ پنجاب سے منسلک سکھ امریکیوں کے لئے خاص طور پر تشویش کا باعث ہے، حالانکہ اس سے دیگر بھارتی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی نژاد امریکیوں پر بھی بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ بہت سے بھارتی نژاد امریکی براہ راست متاثر ہوئے ہیں کیونکہ ان کے خاندانی افراد اور پنجاب میں آبائی زمین ہے اور وہ بھارت میں اپنے کنبہ کی فلاح و بہبود کے لئے فکرمند ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ اس سنگین صورتحال کے پیش نظر ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بیرون ملک سیاسی اظہار خیال کی آزادی سے متعلق امریکہ کے عزم کو تقویت دینے کے لئے اپنے بھارتی ہم منصب سے رابطہ کریں اور انھیں اس مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دلائیں۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 'قومی قانون سازوں کی حیثیت سے ہم موجودہ قانون کی تعمیل میں حکومت ہند کے قومی پالیسی کا تعین کرنے کے حق کا احترام کرتے ہیں'۔
- زرعی قوانین کے خلاف پرامن احتجاج:
اراکین قانون سازوں نے کہا کہ 'ہم بھارت اور بیرون ملک ان لوگوں کے حقوق کا بھی اعتراف کرتے ہیں جو اس وقت زرعی قوانین کے خلاف پرامن طور پر احتجاج کر رہے ہیں جسے بہت سے بھارتی کاشت کار اپنی معاشی سلامتی پر حملہ کے طور پر دیکھتے ہیں'۔
واضح رہے کہ ستمبر میں نافذ ہونے والے تین متنازع زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے لئے 26 نومبر 2020 سے پنجاب، ہریانہ اور کئی دیگر ریاستوں کے ہزاروں کسان دہلی کی مختلف سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
- مزید پڑھیں: کسانوں نے حکومت کے مذاکرات کی تجویز مسترد کی
ان قوانین کو 'کسان مخالف' قرار دیتے ہوئے ہزاروں کسان دعویٰ کرتے ہیں کہ نئی نافذ شدہ قانون سازیوں سے اقل ترین امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگی اور انھیں بڑی کارپوریشنوں کے رحم پر چھوڑ دیا جائے گا۔'