ریاست راجستھان میں اجمیر شہر کے بڑے پیر کی پہاڑی سے ایک توپ چلائی جاتی ہے جس کے دھماکے سے شہر کے لوگوں کو سحری اور افطار کرنے کی اطلاع دی جاتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس توپ کو کوئی مرد نہیں چلاتا ہے بلکہ ایک خاتون فوزیہ خان چلاتی ہیں، فوزیہ خان، سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کے موروثی عملہ سے تعلق رکھتی ہیں اور 8 برس کی عمر سے ہی توپ چلانے کا کام کر رہی ہیں، فوزیہ خان کو توپ چلانے کی ہمت اور حوصلہ ان کے اباو اجداد سے ہی حاصل ہوئی ہے۔
فوزیہ کے والد حنیف خان نے یہ ذمہ نہیں 8 سال کی عمر میں ہی فوزیہ کو سوپ دیا تھا، جس کے بعد سے فوزیہ خان درگاہ کی رسموں کے آغاز کے موقع پر توپ داغنے کے علاوہ رمضان مبارک میں اور ہر جمعہ کی نماز کے علاوہ عید الفطر اور دیگر مہینوں کی چاند رات کو چاند کی شہادت کی اطلاع توپ داغ کر لوگوں کو دیتی ہیں۔
فوزیہ کے دادا بندو خان اور ان کے بعد ان کے والد حنیف خان توپ داغنے کا کام کرتے تھے، یہ سب ہی درگاہ کمیٹی کے موروثی کمیٹی میں شامل ہیں، توپ کے بارود کا خرچہ درگاہ کمیٹی برداشت کرتی ہے، جبکہ فوزیہ کو توپ چلانے کا ماہانہ محض دس سے بیس روپئے ہی ملتا ہیں۔