سپریم کورٹ نے اپنی تجویز میں کہا کہ ضلع عدالت کو حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس پورے عمل کے دوران دونوں فریق کے درمیان امن اور بھائی چارہ قائم رہنا چاہیے۔ ہمیں توازن برقرار رکھنا چاہیے۔ جمعہ کو سپریم کورٹ میں گیانواپی مسجد کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اس معاملے میں تین تجاویز دی ہیں۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج کو خود ہی سماعت کرنی چاہیے۔ اس معاملے کی سماعت جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس نرسمہا اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ کر رہی ہے۔ وہیں وارانسی کی عدالت کو پورے معاملے کی سماعت کا حکم دیا گیا ہے۔Gyanvapi Mosque Case
گیانواپی کیس میں مسلم فریق کے وکیل احمدی نے کہا کہ مسجد کے وجود اور مسجد کے مذہبی کردار پر کوئی تنازع نہیں ہے۔ اس پر ہندو فریق کے سینئر وکیل ویدیا ناتھن نے انہیں روکا اور کہا کہ یہ تنازع ہے۔ اس پر احمدی نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ تنازع میں نہیں ہے۔ مسجد 500 سال سے ہے۔ پی او ڈبلیو ایکٹ کہتا ہے کہ آزادی کے وقت جو مذہبی عبادت گاہ جگہ پر جس صورتحال میں تھی وہ اسی حالت میں برقرار رہے گی۔ اگر اس میں کوئی تبدیلی کی گئی تو قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ ملک میں ایسی کئی جگہیں ہیں، جہاں کئی مذاہب کی علامتیں موجود ہیں۔ پہلے مندر تھا، پھر مسجد، پھر دوسرا مندر یا بودھ مندر۔ تنازع کو روکنے کے لیے POW ایکٹ نافذ کیا گیا۔
دوسری جانب احمدی نے کہا کہ وارانسی کی عدالت کے حکم کو بنیاد بنا کر پانچ اور مساجد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر آج اسے اجازت دی جاتی ہے تو کل کوئی اور اسی طرح سے کسی مسجد کے نیچے مندر ہونے کا نریٹو سیٹ کرے گا۔ اس سے ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگڑ جائے گی۔ لیکن عدالتی حکم کے بعد گزشتہ 500 سال سے جاری جوں کی توں صورت حال کو تبدیل کر دیا گیا۔