نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جانچ کیے گئے 29 موبائل فون میں اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کے استعمال کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے۔ سپریم کورٹ نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حکومت ہند نے پیگاسس جاسوسی کیس کی تحقیقات میں مناسب تعاون نہیں کیا۔ Supreme Court inquiry committee on Pegasus Case
ریٹائرڈ جج آر وی رویندرن کی نگرانی میں قائم انکوائری کمیٹی نے یہ بھی پایا کہ 29 میں سے پانچ موبائل فون ممکنہ طور پر کسی نہ کسی میلویئر سے متاثر تھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں میں پیگاسس تھا۔ چیف جسٹس این وی رمن نے تین رکنی بنچ کی جانب سے ریٹائرڈ جسٹس آر وی رویندرن کی سربراہی والی کمیٹی کی رپورٹ کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے ۔ رپورٹ تین حصوں میں تھی۔ بنچ نے کہا کہ وہ جلد ہی فیصلہ کرے گی کہ رپورٹ کے کن حصوں کو عام کیا جا سکتا ہے۔
تاہم بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں کمیٹی کی جانب سے حکومت کو دی گئی سفارشات اس کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی جائیں گی۔ سماعت کے دوران جسٹس رمن نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے ایک بات کہی ہے کہ حکومت ہند نے تحقیقات میں تعاون نہیں کیا ہے۔
رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، سپریم کورٹ نے کہا کہ اسرائیلی اسپائی ویئر کے مبینہ طور پر ان لوگوں کے موبائل فونز کو متاثر کرنے کے زیادہ ثبوت نہیں ملے جنہوں نے تحقیقات کے لیے اپنے موبائل فون سیٹ جمع کروائے تھے، لیکن کچھ میلویئر ہے جس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ سکیورٹی کی تشویش کا سبب بن سکتا ہے۔اس کے علاوہ، رازداری کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Pegasus Case: پیگاسس جاسوسی معاملے پر سپریم کورٹ میں نئی درخواست، ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل
واضح رہے کہ این رام، ششی کمار، پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا اور روپیش کمار سنگھ جیسے صحافیوں کے علاوہ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے مرکزی حکومت پر پیگاسس جاسوس سافٹ ویئر کا غیر قانونی استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان کے علاوہ، راجیہ سبھا کے رکن جان برٹاس، سماجی کارکن جگدیپ چھوکر نے اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کی درخواست کی تھی۔
یو این آئی