ریاست اترپردیش اور جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے بین مذاہب شادی کے لئے مذہب تبدیل کرنے کے عمل کے سد باب کے لئے بنائے گئے متنازعہ قوانین پر غور و خوض کے لئے رضا مند ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کے زیر صدارت ایک بنچ نے مذکورہ قوانین کے متنازعہ پہلوں پر روک لگانے سے انکار کردیا ہے ۔اس کے علاوہ بنچ نے دائر کی گئی عرضیوں پر دونوں ریاستی حکومتوں کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔
عرضی گذار وشال ٹھاکر سمیت غیر سرکاری تنظیم سیٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نے اتر پردیش حکومت کی جانب سے شادی کے لئے تبدیلی مذہب کے خلاف مذہب کی تبدیلی اور اتراکھنڈ آزادی مذہب قانون 2018 کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضیاں داخل کی ہیں ۔
معاملے کی سماعت کی شروعات میں ہی بنچ نے کہا عرضی گذاروں سے کہا کہ وہ راحت کے لئے الہ آباد ہائی کورٹ جائیں ۔اس سے قبل سالسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے سے ہی وہاں زیر التواہے۔
ایک عرضی گذار نے جب یہ کہا کہ خصوصی عدالت کو ہی اس معاملہ پر غورو خوض کرنا چاہیے تو اس کے جواب میں بینچ نے کہا کہ یہ منتقلی کی عرضی نہیں ہے ۔جس میں وہ قانون سے متعلق سارے معاملات منتقل کرسکتی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے عرضی گذار سی یو سنگھ نے جج دیپک گپتا کے فیصلہ پر کہا کہ ایسی ہی قانون دیگر ریا ستوں میں بھی بنائے گئے ہیں ۔انہوں نے قانون کے متنازعہ پہلوں پر روک لگانے کی گذارش کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو شادی کی تقاریب کے درمیان سے اٹھایاجارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ قوانین کے چند متنازعہ پہلو خطرناک ہے۔ اس قوانین کے تحت شادی کرنے سے قبل حکومت سے اجازت درکار ہے ۔جو کے قابل اعتراض ہے ۔
بینچ نے کہا کہ وہ ان عرضیوں پر نوٹس جاری کر رہی ہے ۔اس کے علاوہ بینچ نے ریاستی حکومتوں سے چار ہفتوں کے اندر جواب بھی طلب کیا ہے ۔