ETV Bharat / bharat

Saudi Arabia Executes 81 People : سعودی حکومت نے 81 افراد کو پھانسی دی - قتل اور شدت پسندی کے الزام میں 81 افراد کو پھانسی

سعودی حکومت نے قتل اور شدت پسند گروپوں سے روابط سمیت مختلف جرائم میں 81 افراد کو پھانسی دے دی۔ پھانسی پانے والوں میں سے کچھ القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ گروپ اور یمن کے حوثی باغیوں کے حامی تھے۔

سعودی حکومت نے 81 افراد کو پھانسی دی
سعودی حکومت نے 81 افراد کو پھانسی دی
author img

By

Published : Mar 13, 2022, 10:06 AM IST

سعودی عرب نے ہفتے کے روز 81 افراد کو اجتماعی طور پر پھانسی دے دی جنہیں قتل اور شدت پسند گروپوں سے روابط سمیت مختلف جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ سعودی عرب کی جدید تاریخ میں یہ پہلا معاملہ ہے جس میں ایک ہی دن میں سب سے زیادہ لوگوں کو اجتماعی طور پر سزائے موت دی گئی ہے۔ اس سے قبل جنوری 1980 میں مکہ کی بڑی مسجد سے متعلق یرغمالیوں کے مقدمات میں سزا یافتہ 63 انتہا پسندوں کو پھانسی دی گئی تھی۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے ہفتے کا دن کیوں منتخب کیا۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا کی پوری توجہ یوکرین روس جنگ پر مرکوز ہے۔ سعودی عرب میں کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران سزائے موت کے مقدمات کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، حالانکہ مختلف مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کے سر قلم کرنے کا سلسلہ شاہ سلمان اور ان کے بیٹے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں بھی جاری رہا۔

ہفتے کے روز دی جانے والی سزائے موت کی تفصیلات بتاتے ہوئے سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے کہا کہ ان میں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل سمیت مختلف جرائم کے مجرم شامل ہیں۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ پھانسی پانے والوں میں سے کچھ القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ گروپ اور یمن کے حوثی باغیوں کے حامی تھے۔ سعودی زیرقیادت اتحاد 2015 سے ہمسایہ ملک یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں سے برسرپیکار ہے تاکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو اقتدار پر بحال کیا جا سکے۔

سزائے موت پانے والوں میں سعودی عرب سے 73 اور یمن سے سات کا تعلق تھا۔ ایک شامی شہری کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ سزائے موت کہاں دی گئی۔ سعودی پریس ایجنسی نے کہا کہ ملزمان کو وکلاء تک رسائی دی گئی اور عدالتی عمل کے دوران سعودی قانون کے تحت ان کے مکمل حقوق کی ضمانت دی گئی۔ ان میں سے بہت سے بڑے جرائم کے مرتکب پائے گئے۔

خبر میں کہا گیا ہے کہ حکومت دہشت گردی اور انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف سخت موقف اختیار کرتی رہے گی جو پوری دنیا کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے سزائے موت دینے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ریپریو کی ڈپٹی ڈائریکٹر سورایا بوونز نے کہا کہ دنیا کو اب تک معلوم ہو جانا چاہیے کہ جب محمد بن سلمان اصلاحات کا وعدہ کریں گے تو خونریزی ضرور ہو گی۔

یورپی سعودی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر علی ادوباسی نے الزام لگایا کہ سزائے موت پانے والوں پر تشدد کیا گیا اور خفیہ طور پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس سے قبل جنوری 2016 میں ایک شیعہ عالم سمیت 47 افراد کو اجتماعی طور پر پھانسی دی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سال 2019 میں 37 افراد کے سر قلم کیے گئے۔ ان اقلیتوں میں سے زیادہ تر کا تعلق شیعہ برادری سے تھا۔

سعودی عرب نے ہفتے کے روز 81 افراد کو اجتماعی طور پر پھانسی دے دی جنہیں قتل اور شدت پسند گروپوں سے روابط سمیت مختلف جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ سعودی عرب کی جدید تاریخ میں یہ پہلا معاملہ ہے جس میں ایک ہی دن میں سب سے زیادہ لوگوں کو اجتماعی طور پر سزائے موت دی گئی ہے۔ اس سے قبل جنوری 1980 میں مکہ کی بڑی مسجد سے متعلق یرغمالیوں کے مقدمات میں سزا یافتہ 63 انتہا پسندوں کو پھانسی دی گئی تھی۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے ہفتے کا دن کیوں منتخب کیا۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا کی پوری توجہ یوکرین روس جنگ پر مرکوز ہے۔ سعودی عرب میں کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران سزائے موت کے مقدمات کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، حالانکہ مختلف مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کے سر قلم کرنے کا سلسلہ شاہ سلمان اور ان کے بیٹے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں بھی جاری رہا۔

ہفتے کے روز دی جانے والی سزائے موت کی تفصیلات بتاتے ہوئے سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے کہا کہ ان میں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل سمیت مختلف جرائم کے مجرم شامل ہیں۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ پھانسی پانے والوں میں سے کچھ القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ گروپ اور یمن کے حوثی باغیوں کے حامی تھے۔ سعودی زیرقیادت اتحاد 2015 سے ہمسایہ ملک یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں سے برسرپیکار ہے تاکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو اقتدار پر بحال کیا جا سکے۔

سزائے موت پانے والوں میں سعودی عرب سے 73 اور یمن سے سات کا تعلق تھا۔ ایک شامی شہری کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ سزائے موت کہاں دی گئی۔ سعودی پریس ایجنسی نے کہا کہ ملزمان کو وکلاء تک رسائی دی گئی اور عدالتی عمل کے دوران سعودی قانون کے تحت ان کے مکمل حقوق کی ضمانت دی گئی۔ ان میں سے بہت سے بڑے جرائم کے مرتکب پائے گئے۔

خبر میں کہا گیا ہے کہ حکومت دہشت گردی اور انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف سخت موقف اختیار کرتی رہے گی جو پوری دنیا کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے سزائے موت دینے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ریپریو کی ڈپٹی ڈائریکٹر سورایا بوونز نے کہا کہ دنیا کو اب تک معلوم ہو جانا چاہیے کہ جب محمد بن سلمان اصلاحات کا وعدہ کریں گے تو خونریزی ضرور ہو گی۔

یورپی سعودی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر علی ادوباسی نے الزام لگایا کہ سزائے موت پانے والوں پر تشدد کیا گیا اور خفیہ طور پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس سے قبل جنوری 2016 میں ایک شیعہ عالم سمیت 47 افراد کو اجتماعی طور پر پھانسی دی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سال 2019 میں 37 افراد کے سر قلم کیے گئے۔ ان اقلیتوں میں سے زیادہ تر کا تعلق شیعہ برادری سے تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.