نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کی درخواست پر مرکز کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ہم جنس شادیوں کو تسلیم کرنے کے معاملے کی جانچ کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل کو نوٹس بھی بھج کر چار ہفتوں میں جواب طلب کر لیا گیا ہے۔ اب سپریم کورٹ فیصلہ کرے گا کہ ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔ Same sex marriage legalization
سپریم کورٹ نے کہا کہ اس طرح کی ایک عرضی دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس پر ایڈوکیٹ این کے کول نے کہا کہ مرکزی حکومت نے کیرالہ ہائی کورٹ سے کہا ہے کہ وہ تمام مقدمات کو منتقل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دے گی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔
واضح رہے کہ حیدرآباد میں رہنے والے دو ہم جنس پرست خواجہ سرا کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی تھی، جس میں اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت ہم جنس شادی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ درخواست گزار سپریو چکرورتی اور ابھے ڈانگ گزشتہ 10 سالوں سے ایک ساتھ رہنے کے بعد حال ہی میں خود کو شادی شدہ قرار دیا ہے۔ تاہم، انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ شادی شدہ جوڑے کے حقوق پر عمل کرنے کے قابل نہیں رہے۔
درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ بین ذات اور بین مذہبی جوڑوں کے اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کے حق کا تحفظ کیا ہے۔ ہم جنس پرستوں کی شادی اس آئینی سفر کا ایک تسلسل ہے۔ نوتیج سنگھ جوہر اور پٹاسوامی کیسوں میں، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ LGBTQ+ افراد کو دوسرے تمام شہریوں کی طرح برابری، وقار اور رازداری کا وہی حق حاصل ہے جس کی آئین ضمانت دیتا ہے۔ اس کیس نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ نیرج کشن کول اور مینکا گروسوامی اور وکیل اروندھتی کاٹجو، پریا پوری اور شریسٹی بورٹھاکر نے سپریم کورٹ میں کی۔
ایک اور ہم جنس پرست جوڑے نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے۔ پارتھ فیروز مہروترا اور ادے راج نے اپنی درخواست میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ہم جنس شادیوں کو تسلیم نہ کرنے سے آرٹیکل 14 کے تحت مساوات کے حق اور ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی گزارنے کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کیس کی نمائندگی سینئر وکیل مکل روہتگی اور سوربھ کرپال نے کی۔
سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی نے روشنی ڈالی کہ یہ معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں پچھلے دو سالوں سے زیر التوا ہے۔ یہ عوامی اہمیت کا حامل معاملہ ہے اور اس کا پورے ہندوستان میں اثر پڑے گا۔ اس معاملے کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے روہتگی نے مزید کہا کہ یہ معاملہ دہلی اور کیرالہ ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر عدالتوں میں بھی زیر التوا ہے۔ انہوں نے پٹاسوامی کیس کو بھی بنچ کے نوٹس میں لایا، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ LGBTQ+ افراد آئین کے ذریعے تمام دیگر شہریوں کی طرح برابری، وقار اور رازداری کے حق سے لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔ روہتگی نے یہ بھی کہا کہ درخواستوں میں ہم نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ وہ ہندو میرج ایکٹ کو متاثر نہ کریں۔
دونوں درخواست گزاروں کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے متعلق مرکز کو نوٹس جاری کرکے چار پفتوں کے اندر جواب طلب کیا ہے۔