ETV Bharat / bharat

بھارت میں گاڑیاں ایک فیصد اورحادثات چھ فیصد

بھارت میں اوسطاً ہر دن چار سو پندرہ افراد مختلف سڑک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ ان حادثات کی زد میں آکر سالانہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد معذور بن جاتے ہیں۔ بھارت میں دُنیا بھر کی موٹر گاڑیوں کی محض ایک فیصد تعداد ہے لیکن دُنیا بھر میں رونما ہونے والے سڑک حادثات میں سے چھ فیصد اسی ملک میں رونما ہوتے ہیں۔ دُنیا بھر میں سڑک حادثات میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں سے گیارہ فیصد اموات بھارت میں ہی رونما ہوتی ہیں۔

author img

By

Published : Feb 16, 2021, 4:16 PM IST

حکومت روڈ سیفٹی کو یقینی بنانے میں ناکام
حکومت روڈ سیفٹی کو یقینی بنانے میں ناکام

ہر انسان اپنا کوئی سفر اس اُمید کے ساتھ شروع کرتا ہے کہ اس کا یہ سفر منزل پر پہنچنے کی خوشی کے ساتھ ختم ہوگا، لیکن اگر اس طرح کے کسی سفر میں خود مسافر کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے تو اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے؟ بھارت میں روڈ سیفٹی کا دعویٰ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے کیونکہ یہاں سڑک حادثات میں لاکھوں کنبے متاثر ہوجاتے ہیں۔

حال ہی میں وشاکا پٹنم میں ایک مسافر گاڑی ایک جگہ مڑتے ہوئے دو سو فٹ گہری کھائی میں جاگری اور اس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور دیگر بیس زخمی ہوگئے۔ یہ گاڑی آندھرا پردیش کے ایک مشہور سیاحتی مقام اراکا ویلی سے واپس لوٹ رہی تھی۔ حادثے کا شکار متاثرین کا تعلق تلنگانہ سے تھا۔ اس حادثے کے بعد اسی ریاست کے کُرنول ضلع میں ایک اور سڑک حادثے میں چودہ افراد مارے گئے۔

گزشتہ ماہ کرناٹک میں ایک سڑک حادثے میں تیرہ لڑکیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ گجرات میں سڑک کے کنارے پر سورہے پندرہ افراد کو ایک تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا۔ اس سے پہلے کہ ملک اس المناک حادثے کے صدمے سے باہر نکل پاتا، مغربی بنگال میں ایک اور سڑک حادثے میں چودہ افراد ہلاک ہوگئے۔ مسلسل رونما ہونے والے اس طرح کے خونین حادثات کی فہرست طویل ہے۔

بھارت میں اوسطاً ہر دن چار سو پندرہ افراد مختلف سڑک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ان حادثات کی زد میں آکر سالانہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد معذور بن جاتے ہیں۔ بھارت میں دُنیا بھر کی موٹر گاڑیوں کا محض ایک فیصد ہے لیکن دُنیا بھر میں رونما ہونے والے سڑک حادثات میں سے چھ فیصد اسی ملک میں رونما ہوجاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں سڑک حادثات کی مجموعی ہلاکتوں میں سے گیارہ فیصد اموات بھارت میں رونما ہوتی ہیں۔

سڑک حادثات کی تعداد کے حوالے سے بھارت اور جاپان ایک جیسے ہیں، لیکن جہاں جاپان میں رونما ہونے والے سڑک حادثات میں سالانہ پانچ ہزار سے بھی کم ہلاکتیں ہوجاتی ہیں، وہیں بھارت میں سالانہ سڑک حادثات کا شکار ہوکر لقمہ اجل بننے والے لوگوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہوجاتی ہے۔

ہر سال روڈ سیفٹی ہفتہ منائے جانے کا سلسلہ بتیس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ تاہم اس عرصے میں سڑک حادثات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ صورت حال عوام کو حاصل جینے کے حق پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ مرکزی سرکار نے یہ بات تسلیم تو کرلی ہے کہ سڑک حادثات کے بڑھتے واقعات، کووِڈ سے بھی خطرناک مسئلہ ہے۔ لیکن کیا اس نے اس صورتحال کے تدارک کےلئے مناسب اقدامات کئے ہیں؟

اقوام متحدہ نے سال 2011ء سے لیکر 2020ء کے عرصے کو سڑک حادثات کا تدارک کرنے کی دہائی قرار دیا تھا۔ اس کے تخمینے کے مطابق اس عرصے میں سڑک حادثات کے تدارک کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں دُنیا بھر میں پچاس لاکھ انسانی زندگیوں کو بچالیا جائے گا۔ سال 2015ء میں برازیلیا ڈیکلریشن کے تحت عہد کیا گیا تھا کہ مطلوبہ اقدامات کرتے ہوئے سال 2020ء تک سڑک حادثات میں ہونی والی اموات پچاس فیصد کم جائیں گی۔ لیکن اس ہدف کو پورا نہیں کیا جاسکا

اس عرصہ میں رونما ہونے والے حادثات میں تیرہ لاکھ ہلاکتیں ہوئیں اور پچاس لاکھ افراد نیم مردہ ہوکر رہ گئے۔ ان ہلاکتوں میں اکسٹھ فیصد سے زائد اموات قومی اور ریاستی شاہراہوں پر رونما ہونے والے حادثات میں ہوئی ہیں، جو ملک کی سڑکوں کے نیٹ ورک کا پانچ فیصد سے بھی کم حصہ پر مشتمل ہیں۔

سڑک حادثات میں مارے جانے والوں میں شامل ستر فیصد کی عمر اٹھارہ سے پینتالیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ ورلڈ بینک نے سڑک حادثات کی وجہ سے بھارت کے سماج پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ایک تحقیق کی، جس سے پتہ چلا کہ متاثرہ کنبوں میں شامل پچھتر فیصد غریب کنبے ان حادثات میں اپنے کفیل کھو بیٹھتے ہیں۔ ان حادثات کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کو سات لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوجاتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے تناظر میں سڑک حادثات کے رجحان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کی رائے ہے سڑک حادثات کو روکنے کے لئے جب تک مطلوبہ اقدامات، جیسے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے، جانکاری مہم چلانے، قوانین کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے وغیرہ جیسے اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں، تب تک اس حوالے سے صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی ہے۔ حادثات کے رجحان کا ایک سبب تیز رفتاری ہے۔ اس لئے ڈرائیوروں کے لئے جانکاری مہم چلانے، سڑکوں پر واقع خطرناک موڑ ٹھیک کرنے اور دیگر مطلوبہ اقدامات فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قومی شاہراہ پر شراب خانوں کو بند کرنا بھی اہم ہے۔

محفوظ سفر صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب حکومت، شہریوں اور سیول سوسائٹی کے آپسی تال میل سے روڈ سیفٹی کو ایک سماجی ذمہ دار میں بدل دیا جائے گا۔

ہر انسان اپنا کوئی سفر اس اُمید کے ساتھ شروع کرتا ہے کہ اس کا یہ سفر منزل پر پہنچنے کی خوشی کے ساتھ ختم ہوگا، لیکن اگر اس طرح کے کسی سفر میں خود مسافر کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے تو اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے؟ بھارت میں روڈ سیفٹی کا دعویٰ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے کیونکہ یہاں سڑک حادثات میں لاکھوں کنبے متاثر ہوجاتے ہیں۔

حال ہی میں وشاکا پٹنم میں ایک مسافر گاڑی ایک جگہ مڑتے ہوئے دو سو فٹ گہری کھائی میں جاگری اور اس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور دیگر بیس زخمی ہوگئے۔ یہ گاڑی آندھرا پردیش کے ایک مشہور سیاحتی مقام اراکا ویلی سے واپس لوٹ رہی تھی۔ حادثے کا شکار متاثرین کا تعلق تلنگانہ سے تھا۔ اس حادثے کے بعد اسی ریاست کے کُرنول ضلع میں ایک اور سڑک حادثے میں چودہ افراد مارے گئے۔

گزشتہ ماہ کرناٹک میں ایک سڑک حادثے میں تیرہ لڑکیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ گجرات میں سڑک کے کنارے پر سورہے پندرہ افراد کو ایک تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا۔ اس سے پہلے کہ ملک اس المناک حادثے کے صدمے سے باہر نکل پاتا، مغربی بنگال میں ایک اور سڑک حادثے میں چودہ افراد ہلاک ہوگئے۔ مسلسل رونما ہونے والے اس طرح کے خونین حادثات کی فہرست طویل ہے۔

بھارت میں اوسطاً ہر دن چار سو پندرہ افراد مختلف سڑک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ان حادثات کی زد میں آکر سالانہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد معذور بن جاتے ہیں۔ بھارت میں دُنیا بھر کی موٹر گاڑیوں کا محض ایک فیصد ہے لیکن دُنیا بھر میں رونما ہونے والے سڑک حادثات میں سے چھ فیصد اسی ملک میں رونما ہوجاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں سڑک حادثات کی مجموعی ہلاکتوں میں سے گیارہ فیصد اموات بھارت میں رونما ہوتی ہیں۔

سڑک حادثات کی تعداد کے حوالے سے بھارت اور جاپان ایک جیسے ہیں، لیکن جہاں جاپان میں رونما ہونے والے سڑک حادثات میں سالانہ پانچ ہزار سے بھی کم ہلاکتیں ہوجاتی ہیں، وہیں بھارت میں سالانہ سڑک حادثات کا شکار ہوکر لقمہ اجل بننے والے لوگوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہوجاتی ہے۔

ہر سال روڈ سیفٹی ہفتہ منائے جانے کا سلسلہ بتیس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ تاہم اس عرصے میں سڑک حادثات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ صورت حال عوام کو حاصل جینے کے حق پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ مرکزی سرکار نے یہ بات تسلیم تو کرلی ہے کہ سڑک حادثات کے بڑھتے واقعات، کووِڈ سے بھی خطرناک مسئلہ ہے۔ لیکن کیا اس نے اس صورتحال کے تدارک کےلئے مناسب اقدامات کئے ہیں؟

اقوام متحدہ نے سال 2011ء سے لیکر 2020ء کے عرصے کو سڑک حادثات کا تدارک کرنے کی دہائی قرار دیا تھا۔ اس کے تخمینے کے مطابق اس عرصے میں سڑک حادثات کے تدارک کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں دُنیا بھر میں پچاس لاکھ انسانی زندگیوں کو بچالیا جائے گا۔ سال 2015ء میں برازیلیا ڈیکلریشن کے تحت عہد کیا گیا تھا کہ مطلوبہ اقدامات کرتے ہوئے سال 2020ء تک سڑک حادثات میں ہونی والی اموات پچاس فیصد کم جائیں گی۔ لیکن اس ہدف کو پورا نہیں کیا جاسکا

اس عرصہ میں رونما ہونے والے حادثات میں تیرہ لاکھ ہلاکتیں ہوئیں اور پچاس لاکھ افراد نیم مردہ ہوکر رہ گئے۔ ان ہلاکتوں میں اکسٹھ فیصد سے زائد اموات قومی اور ریاستی شاہراہوں پر رونما ہونے والے حادثات میں ہوئی ہیں، جو ملک کی سڑکوں کے نیٹ ورک کا پانچ فیصد سے بھی کم حصہ پر مشتمل ہیں۔

سڑک حادثات میں مارے جانے والوں میں شامل ستر فیصد کی عمر اٹھارہ سے پینتالیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ ورلڈ بینک نے سڑک حادثات کی وجہ سے بھارت کے سماج پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ایک تحقیق کی، جس سے پتہ چلا کہ متاثرہ کنبوں میں شامل پچھتر فیصد غریب کنبے ان حادثات میں اپنے کفیل کھو بیٹھتے ہیں۔ ان حادثات کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کو سات لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوجاتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے تناظر میں سڑک حادثات کے رجحان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کی رائے ہے سڑک حادثات کو روکنے کے لئے جب تک مطلوبہ اقدامات، جیسے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے، جانکاری مہم چلانے، قوانین کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے وغیرہ جیسے اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں، تب تک اس حوالے سے صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی ہے۔ حادثات کے رجحان کا ایک سبب تیز رفتاری ہے۔ اس لئے ڈرائیوروں کے لئے جانکاری مہم چلانے، سڑکوں پر واقع خطرناک موڑ ٹھیک کرنے اور دیگر مطلوبہ اقدامات فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قومی شاہراہ پر شراب خانوں کو بند کرنا بھی اہم ہے۔

محفوظ سفر صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب حکومت، شہریوں اور سیول سوسائٹی کے آپسی تال میل سے روڈ سیفٹی کو ایک سماجی ذمہ دار میں بدل دیا جائے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.