کیرالہ کی اسمبلی میں جمعرات کے روز مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی۔
خاص بات یہ ہے کہ ریاست میں بی جے پی کے واحد رکن اسمبلی اولن چیری راج گوپال نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔ اسمبلی کے اسپیکر پی شری رام کرشنا نے کہا کہ اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں یہ قرارداد صوتی ووٹوں سے متفقہ طور پر منظور کی گئی۔
حالانکہ، راج گوپال کی حمایت کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں زرعی قوانین میں ترمیم کرنے کی بات کہی۔
بعد ازاں راجا گوپال نے میڈیا کو بتایا 'میں نے اس قرارداد کی حمایت تو کی ہے، لیکن اس کے کچھ حصوں کی مخالفت بھی کی ہے۔ میں نے اسمبلی میں اتفاق رائے پر عمل کیا اور ایسا میں نے جمہوری جذبات کے تحت کیا۔ انہوں نے کہا 'لیکن مجھے ان قوانین کی تشریح پر کچھ اعتراضات ہیں۔'
اس قرارداد کے لیے بلائے گئے خصوصی اجلاس میں کووڈ-19 کے ضابطوں کا پورا خیال رکھا گیا۔ اسمبلی کا یہ اجلاس زرعی قوانین کے خلاف تحریک چلا رہے کسانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقد گیا تھا۔
ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف کے ارکان اسمبلی نے اس قرارداد کی حمایت کی۔
اس قرارداد کو پیش کرتے ہوئے وزیر اعلی پنرائی وجین نے الزام لگایا کہ مرکز کے زرعی قوانین میں کی گئی ترامیم صنعت کاروں کی مدد کے لئے کی گئی ہیں۔ مرکزی حکومت نے ان تینوں قوانین کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر پاس کرایا تھا۔ اگر کسانوں کی تحریک جاری رہی تو ایک ریاست کے طور پر کیرالہ بری طرح متاثر ہوگا۔
اس قرارداد پر تقریبا دو گھنٹے کی بحث کے بعد ایوان نے اسے صوتی ووٹ کے ذریعہ متفقہ طور پر منظور کیا۔ اسمبلی کے اسپیکر پی شری کرشنا نے کہا 'اس قرارداد کی منظوری کسانوں کے مطالبے کے تئیں ایوان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔'
![kerala assembly passes resolution against farm laws](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/10069940_tumbnail_sff.jpg)
اس سے قبل خصوصی اجلاس کے دوران قرار دار پیش کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ مرکزی حکومت ایک ایسے وقت میں یہ زرعی قوانین لے کر آئی ہے، جب زرعی شعبے پہلے سے ہی بحران کا سامنا رہا ہے، اس قانون سے زرعی شعبے پر بڑا اثر پڑے گا۔
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ پاس کیا گیا یہ زرعی قوانین نہ صرف کسان مخالف ہے، بلکہ یہ صنعتی شعبے کو فائدہ پہنچانے والا بھی ہے۔کسان احتجاج کے آخری 35 دنوں میں کم از کم 32 کسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
وجین نے فوری طور پر یہ قانون واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ملک تاریخ میں اب تک کے سب سے بڑے کسان احتجاج کو دیکھ رہا ہے۔پارلیمنٹ میں 'کسان زرعی پیداوار تجارت اور کامرس قانون 2020‘، ’کسان (امپاورمنٹ اور پروٹیکشن) زرعی سروس قانون 2020‘، جس میں قیمت کی یقین دہانی اور معاہدے شامل ہیں اور تیسرا قانون ’ضروری اشیا (ترمیمی) قانون‘ کو پاس کیا گیا ہے، کسان ان تین قوانینکو ختم کرنے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب عوام میں ان کی زندگی کو متاثر کرنے والے کسی موضوع کو لے کر شک و شبہات یا تشویش ہو تو تب قانون سازوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔
وزیراعلی نے کہا کہ زرعی پیداوار کی مناسب قیمت کو لے کر کسانوں میں عدم اعتماد ہے۔ ساتھ میں فوڈ سیکورٹی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جب حکومت ذخیرہ اندوزی سے دستبرداری اختیار کرے گی، تب بلیک مارکیٹ میں اضافہ ہوگا اور اشیائے خوردونوش کی فراہمی خطرے میں پڑ جائے گی۔ موجودہ صورتحال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر یہ احتجاج جاری رہا تو یہ کیرالہ کو شدید طور پر کرے گا ۔
مزید پڑھیں:
دہلی میں خواتین کسانوں کا احتجاج
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر دوسری ریاستوں سے کیرالہ کو فراہم ہونے اشیائے خوردونوش کو بند کردیا گیا تو یقینا کیرالہ کو بھوک اور فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑے گا۔خاص طور پر کووڈ کے ایسی نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیرالہ اس طرح کے حالت کو برداشت نہیں کرسکے گا۔