ETV Bharat / bharat

بھارت پاکستان کے درمیان سندھ - طاس معاہدے کا حل جلد ممکن: بھارتی کمشنر

انڈس واٹرس ٹریٹی (سندھ طاس معاہدے) پر بھارت اور پاکستان کے مابین 19 ستمبر 1960 میں دستخط ہوئے تھے۔

author img

By

Published : Mar 16, 2021, 1:41 PM IST

Updated : Mar 16, 2021, 3:17 PM IST

بھارت پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کا حل جلد ممکن
بھارت پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کا حل جلد ممکن

بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے متعلق دونوں ممالک کے درمیان کمشنر سطح کی بات چیت سے قبل ای ٹی وی بھارت نے بھارت کے کمشنر پردیپ کمار سکسینہ سے بات چیت کی اور جاننے کی کوشش کی کہ اس مذاکرات سے کیا توقعات ہیں اور انڈس واٹر معاہدے (سندھ طاس معاہدے) کے مقاصد کیا ہیں اور اس سے کیا مدد ملے گی؟

انڈس واٹرس ٹریٹی کے متعلق ہمیں ایک مختصر تفصیل بتائیں؟

انڈس واٹرس ٹریٹی (سندھ طاس معاہدے) پر بھارت اور پاکستان کے مابین 19 ستمبر 1960 کو دستخط ہوئے تھے۔ اس کے تحت مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے اوسطاً سالانہ بہاؤ کے 33 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کو بھارت کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ اس کے غیر محدود استعمال کے لئے مزید برآں بھارت کی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ 135 ایم اے ایف کے ارد گرد اوسطاً بہاؤ کے ساتھ مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب کا مکمل پانی پاکستان کے لئے چھوڑے گا۔ اس دوران ان تین ندیوں کے پانی کے بہاؤپر بھارت کو مداخلت کی اجازت نہں ہوگی سوائے گھریلو جیسا کہ معاہدہ میں طئے ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کو مغربی ندیوں پر پن بجلی پیدا کرنے کا غیر محدود حق بھی دیا گیا ہے۔

پاکستان دریائے چناب پربھارتی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائنوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کررہا ہے؟ اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

بھارت معاہدے کے تحت اپنے حقوق کے مکمل استعمال کے لئے پرعزم ہے اور اس کے لئے کوشاں ہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے امور کے دوستانہ حل پر یقین رکھتے ہیں۔ اس ملاقات کے دوران دریائے چناب پر بھارتی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر پاکستان کے اعتراضات پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ جاری تبادلہ خیال سے ان امور پر ایک حل طے پا جائے گا۔

انڈس واٹر معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان رشتے سے کتنا ملحق ہے؟

یہ معاہدہ ایک طے شدہ طریقہ کار کے ذریعہ سندھ کے پانی کے استعمال اور اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کو طے کرتا ہے۔

پاک بھارت مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں آنے والا اجلاس کتنا اہم ہے؟

معاہدے کی دفعات کے تحت دونوں کمشنرز کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک بار بھارت اور اگلے سال پاکستان میں ملیں۔ اس سے قبل مارچ 2020 میں نئی ​​دہلی میں آخری سال کی میٹنگ طے شدہ تھی، جو وبائی صورتحال کے پیش نظر باہمی رضامندی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پہلی بار منسوخ کردی گئی تھی۔ صورتحال میں بہتری کے ساتھ یہ لازمی اجلاس کووڈ 19 سے متعلق تمام پروٹوکول کے ساتھ ہو رہا ہے۔

انڈس واٹرس ٹریٹی میں بھارت کا کیا کردار ہوگا؟

سالانہ اجلاس لازمی ہے اور اجلاس کے ایجنڈے کا فیصلہ دونوں کمشنرز اجلاس سے قبل کریں گے۔ بھارت اس معاہدے پر دستخط کنندہ ہے۔

بھارت اور پاک کے مابین آبی تنازعہ اور تعاون سے کیا اثر پڑے گا؟

معاہدے کا آرٹیکل 9 تنازعات کے حل کے لئے کئی سطح پر طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ اس کے تحت کمشنز، حکومت اور پھر تیسرے فریق کو حل کے لئے شامل کیا جاسکتا ہے۔

کس نئی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے کیوں کہ آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد یہ پہلا اجلاس ہوگا؟

بھارت اور پاکستان کے کمشنرز کے مابین ہونے والی یہ نشست سالانہ ہونے والی میٹنگ ہے۔ جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد یہ دونوں کمشنرز کے مابین پہلی ملاقات بھی ہوگی۔ اس کے تحت جموں وکشمیر ریاست کو دو مرکزی علاقوں لداخ اور جموں وکشمیر میں تشکیل دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق بھارت نے لداخ میں پن بجلی کے متعدد منصوبوں کو منظوری دے دی ہے۔ لیہ کے لئے دوربوک شوک (19 میگاواٹ)، شنکر (18.5 میگاواٹ)، نمو چِلنگ (24 میگاواٹ)، رونڈو (12 میگاواٹ)، رتن ناگ (10.5 میگاواٹ) جبکہ منگدم سانگرا (19 میگاواٹ)، کارگل ہنڈرمین (25 میگاواٹ) ہیں۔ ) اور تماشا (12 میگاواٹ) کے منصوبے کو کارگل کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

آئی ڈبلیو ٹی کے متعلق کیا پس منظر تھا اور یہ ضروری کیوں تھا؟

بھارت کے انڈس کمشنر پی کے سکسینا نے کہا کہ تقسیم کے بعد تقسیم شدہ پانی پر حقوق اور ذمہ داری ضروری تھی۔

وزارت جل شکتی کے مطابق محکمہ آبی وسائل، ریور ترقیات، گنگا بحالی، آزادی کے وقت دو نئے بنائے گئے آزاد ملکوں - پاکستان اور بھارت کے مابین سرحد کی لائن سیدھے طور پر دریائے سندھ کے پار کھینچی گئی تھی۔

مزید یہ کہ آب پاشی کے دو اہم سر چشمے ایک دریائے راوی پر مادھو پور میں اور دوسرا ستلج دریائے فیروز پور میں، جس پر پنجاب (پاکستان) میں آبپاشی نہر کی فراہمی مکمل طور پر انحصار کرتی تھی، کو بھارتی علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔

اس طرح دونوں ممالک کے مابین موجودہ سہولیات سے آبپاشی کے پانی کے استعمال سے متعلق تنازعہ کھڑا ہوا۔

بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی (ورلڈ بینک) کے دفاتر کے تحت ہونے والی بات چیت کا اختتام 1960 میں انڈس واٹرس ٹریٹی پر ہوا۔

معاہدہ پر پاکستان کے اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے پر کراچی میں اس وقت کے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور ولڈ بینک کے ڈبلیو اے بی لیف نے 19 ستمبر 1960 میں دستخط کئے تھے۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 میں نافذ ہوا تھا۔

واضح رہے کہ آئندہ اجلاس دو سال کے وقفے کے بعد ہونے والی 116 ویں میٹنگ ہوگی اور جب سے 1960 میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے بھارت اور پاکستان کے درمیان 115 میٹنگ ہو چکی ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے متعلق دونوں ممالک کے درمیان کمشنر سطح کی بات چیت سے قبل ای ٹی وی بھارت نے بھارت کے کمشنر پردیپ کمار سکسینہ سے بات چیت کی اور جاننے کی کوشش کی کہ اس مذاکرات سے کیا توقعات ہیں اور انڈس واٹر معاہدے (سندھ طاس معاہدے) کے مقاصد کیا ہیں اور اس سے کیا مدد ملے گی؟

انڈس واٹرس ٹریٹی کے متعلق ہمیں ایک مختصر تفصیل بتائیں؟

انڈس واٹرس ٹریٹی (سندھ طاس معاہدے) پر بھارت اور پاکستان کے مابین 19 ستمبر 1960 کو دستخط ہوئے تھے۔ اس کے تحت مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے اوسطاً سالانہ بہاؤ کے 33 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کو بھارت کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ اس کے غیر محدود استعمال کے لئے مزید برآں بھارت کی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ 135 ایم اے ایف کے ارد گرد اوسطاً بہاؤ کے ساتھ مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب کا مکمل پانی پاکستان کے لئے چھوڑے گا۔ اس دوران ان تین ندیوں کے پانی کے بہاؤپر بھارت کو مداخلت کی اجازت نہں ہوگی سوائے گھریلو جیسا کہ معاہدہ میں طئے ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کو مغربی ندیوں پر پن بجلی پیدا کرنے کا غیر محدود حق بھی دیا گیا ہے۔

پاکستان دریائے چناب پربھارتی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائنوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کررہا ہے؟ اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

بھارت معاہدے کے تحت اپنے حقوق کے مکمل استعمال کے لئے پرعزم ہے اور اس کے لئے کوشاں ہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے امور کے دوستانہ حل پر یقین رکھتے ہیں۔ اس ملاقات کے دوران دریائے چناب پر بھارتی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر پاکستان کے اعتراضات پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ جاری تبادلہ خیال سے ان امور پر ایک حل طے پا جائے گا۔

انڈس واٹر معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان رشتے سے کتنا ملحق ہے؟

یہ معاہدہ ایک طے شدہ طریقہ کار کے ذریعہ سندھ کے پانی کے استعمال اور اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کو طے کرتا ہے۔

پاک بھارت مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں آنے والا اجلاس کتنا اہم ہے؟

معاہدے کی دفعات کے تحت دونوں کمشنرز کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک بار بھارت اور اگلے سال پاکستان میں ملیں۔ اس سے قبل مارچ 2020 میں نئی ​​دہلی میں آخری سال کی میٹنگ طے شدہ تھی، جو وبائی صورتحال کے پیش نظر باہمی رضامندی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پہلی بار منسوخ کردی گئی تھی۔ صورتحال میں بہتری کے ساتھ یہ لازمی اجلاس کووڈ 19 سے متعلق تمام پروٹوکول کے ساتھ ہو رہا ہے۔

انڈس واٹرس ٹریٹی میں بھارت کا کیا کردار ہوگا؟

سالانہ اجلاس لازمی ہے اور اجلاس کے ایجنڈے کا فیصلہ دونوں کمشنرز اجلاس سے قبل کریں گے۔ بھارت اس معاہدے پر دستخط کنندہ ہے۔

بھارت اور پاک کے مابین آبی تنازعہ اور تعاون سے کیا اثر پڑے گا؟

معاہدے کا آرٹیکل 9 تنازعات کے حل کے لئے کئی سطح پر طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ اس کے تحت کمشنز، حکومت اور پھر تیسرے فریق کو حل کے لئے شامل کیا جاسکتا ہے۔

کس نئی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے کیوں کہ آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد یہ پہلا اجلاس ہوگا؟

بھارت اور پاکستان کے کمشنرز کے مابین ہونے والی یہ نشست سالانہ ہونے والی میٹنگ ہے۔ جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد یہ دونوں کمشنرز کے مابین پہلی ملاقات بھی ہوگی۔ اس کے تحت جموں وکشمیر ریاست کو دو مرکزی علاقوں لداخ اور جموں وکشمیر میں تشکیل دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق بھارت نے لداخ میں پن بجلی کے متعدد منصوبوں کو منظوری دے دی ہے۔ لیہ کے لئے دوربوک شوک (19 میگاواٹ)، شنکر (18.5 میگاواٹ)، نمو چِلنگ (24 میگاواٹ)، رونڈو (12 میگاواٹ)، رتن ناگ (10.5 میگاواٹ) جبکہ منگدم سانگرا (19 میگاواٹ)، کارگل ہنڈرمین (25 میگاواٹ) ہیں۔ ) اور تماشا (12 میگاواٹ) کے منصوبے کو کارگل کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

آئی ڈبلیو ٹی کے متعلق کیا پس منظر تھا اور یہ ضروری کیوں تھا؟

بھارت کے انڈس کمشنر پی کے سکسینا نے کہا کہ تقسیم کے بعد تقسیم شدہ پانی پر حقوق اور ذمہ داری ضروری تھی۔

وزارت جل شکتی کے مطابق محکمہ آبی وسائل، ریور ترقیات، گنگا بحالی، آزادی کے وقت دو نئے بنائے گئے آزاد ملکوں - پاکستان اور بھارت کے مابین سرحد کی لائن سیدھے طور پر دریائے سندھ کے پار کھینچی گئی تھی۔

مزید یہ کہ آب پاشی کے دو اہم سر چشمے ایک دریائے راوی پر مادھو پور میں اور دوسرا ستلج دریائے فیروز پور میں، جس پر پنجاب (پاکستان) میں آبپاشی نہر کی فراہمی مکمل طور پر انحصار کرتی تھی، کو بھارتی علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔

اس طرح دونوں ممالک کے مابین موجودہ سہولیات سے آبپاشی کے پانی کے استعمال سے متعلق تنازعہ کھڑا ہوا۔

بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی (ورلڈ بینک) کے دفاتر کے تحت ہونے والی بات چیت کا اختتام 1960 میں انڈس واٹرس ٹریٹی پر ہوا۔

معاہدہ پر پاکستان کے اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے پر کراچی میں اس وقت کے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور ولڈ بینک کے ڈبلیو اے بی لیف نے 19 ستمبر 1960 میں دستخط کئے تھے۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 میں نافذ ہوا تھا۔

واضح رہے کہ آئندہ اجلاس دو سال کے وقفے کے بعد ہونے والی 116 ویں میٹنگ ہوگی اور جب سے 1960 میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے بھارت اور پاکستان کے درمیان 115 میٹنگ ہو چکی ہے۔

Last Updated : Mar 16, 2021, 3:17 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.