ETV Bharat / bharat

'ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں'

فلمی دنیا میں جن شعرا کرام کے نغموں کی گونج رہی، ان میں جاں نثار اختر کا نام اہم ترین مانا جاتا ہے۔

author img

By

Published : Feb 18, 2021, 10:16 AM IST

جاں نثار اختر
جاں نثار اختر

جاں نثار اختر اگرچہ ترقی پسند شاعر تھے، تاہم انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جن میں رومان بھی ہے، انقلابی باتیں بھی، کچھ امید بھی ہے، کچھ درد بھی ہے اور کچھ ہجر و وصال بھی دکھائی ہے۔

ہندی فلمی دنیا میں جاں نثار اختر کو ایک ایسے نغمہ نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے نغموں کو عام زندگی کے ساتھ منسلک کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

جاں نثار اختر 18 فروری 1914 کو ریاست مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر میں پیدا ہوئے ان کے والد مضطر خیرآبادی بھی ایک مشہور شاعر تھے۔ ان کا بچپن سے شاعری سے گہرا تعلق تھا۔

انہوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو بہت قریب سے دیکھا تھا اسی لئے ان کی شاعری میں زندگی کے فسانے کو بڑی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ان کی غزلیں بھی جو مزاج کے اعتبار سے جدید تر بھی ہیں اور پرانی شعری روایت کا تسلسل بھی۔ انکی شاعری نعروں کی شاعری نہیں۔ مجموعی طور پر یہ شاعری کلاسیکیت ، رومانیت ، حقیقیت نگاری کا امتزاج اور عاشقانہ و نظریاتی شاعری کا نمونہ ہے۔

سنہ 1945 ء اختر کے لئے خوشیوں کی سوغات لے کر آیا اس سال ان کا بیٹا پیدا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے ’جادو‘ رکھا جو بعد میں ’’جاوید اختر‘‘ کے نام سے فلم انڈسٹری میں مشہور ہوئے۔

سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد ملک بھر میں ہو رہے فرقہ وارانہ فسادات سے تنگ آکر اختر گوالیار چھوڑ کر بھوپال آگئے۔

بھوپال میں وہ مشہور حمیدیہ کالج میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوگئے لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کا دل وہاں نہیں لگا اور وہ اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کے لئے 1949 میں ممبئی آ گئے۔

ممبئی پہنچنے پر انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کچھ دنوں تک وہ مشہور ناول نگار عصمت چغتائی کے یہاں بھی رہے۔

انہوں نے سب سے پہلے فلم ’شکایت‘ کے لئے نغمہ لکھا لیکن فلم کی ناکامی کے بعدانہیں اپنا فلمی کیریئر ڈوبتا نظر آیا لیکن انہوں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

آہستہ آہستہ ممبئی میں ان کی شناخت بنتی گئی لیکن سال 1952 میں انہیں گہرا صدمہ پہنچا جب ان بیگم کا انتقال ہو گیا۔

مزید پڑھیں:عوام کو باہمت بنانے والا شاعر: فیض احمد فیض

تقریباً چار سال تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کے بعد 1953 میں فلم ’نغمہ‘ میں گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں ’’بڑی مشکل سے دل کی بیقراری میں قرار آیا‘‘ کی کامیابی سے وہ فلم انڈسٹری میں خود کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

فلم نغمہ کی کامیابی کے بعد اختر کو اچھی فلموں کی پیشکش ملنے لگی۔ اس دوران، انہوں نے چھوٹے بجٹ کی فلموں کو بھی بنایا جس میں انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔اچانک هي ان کی ملاقات موسیقار اوپي نیر سے ہوئی جن کے موسیقی ہدایت میں انہوں نے فلم "باپ رے باپ" کیلئے "اب یہ بتا جائیں کہاں" اور "دیوانہ دل اب مجھے راہ دکھائے‘‘ نغمہ لکھے ۔ آشا بھونسلے کی آواز میں یہ نغمے کافی مقبول ہوئے۔

اس کے بعد وہ او پی نیر کے پسندیدہ موسیقار بن گئے۔ 1956 میں او پی نیر کی موسیقی سے سجی گرودت کی فلم سی آئی ڈی میں’اے دل ہے مشکل جینا یہاں ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے ممبئی میری جاں‘ کی کامیابی کے بعد انہوں نے کبھی موڑ کر نہیں دیکھا۔

ساٹھ کی دہائی میں اختر نے موسیقار خیام کی موسیقی میں بہت سے غیر فلمی نغمہ بھی لکھے۔

ان کے غیر فلمی گیتوں میں "اشعار میرا یوں تو زمانے کے لئے ہے، ہر ایک حسن تیرا، ہم سے بھاگا نہ کرو، راہی ہے دی طلب، تھر تھرا اٹھی ہے، ذرا سی بات پر ہر" جیسے نہ بھولنے والے نغمے شامل ہیں۔

سال 1976 میں اختر کے قیمتی شراکت کو دیکھتے ہوئے انہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

تقریباً چار دہائیوں کے اپنے فلمی کیریئر میں انہوں نے 80 فلموں کے لئے نغمے لکھے۔ اپنے نغموں سے سامعین کے دل میں خاص شناخت بنانے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار جاں نثار اختر 19 اگست 1976 کو اس دنیا کو یہ کہہ کر الوداع کہہ گئے۔

ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں

کبھی کبھی کوئی چہرا دکھائی دیتا ہے

جاں نثار اختر اگرچہ ترقی پسند شاعر تھے، تاہم انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جن میں رومان بھی ہے، انقلابی باتیں بھی، کچھ امید بھی ہے، کچھ درد بھی ہے اور کچھ ہجر و وصال بھی دکھائی ہے۔

ہندی فلمی دنیا میں جاں نثار اختر کو ایک ایسے نغمہ نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے نغموں کو عام زندگی کے ساتھ منسلک کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

جاں نثار اختر 18 فروری 1914 کو ریاست مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر میں پیدا ہوئے ان کے والد مضطر خیرآبادی بھی ایک مشہور شاعر تھے۔ ان کا بچپن سے شاعری سے گہرا تعلق تھا۔

انہوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو بہت قریب سے دیکھا تھا اسی لئے ان کی شاعری میں زندگی کے فسانے کو بڑی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ان کی غزلیں بھی جو مزاج کے اعتبار سے جدید تر بھی ہیں اور پرانی شعری روایت کا تسلسل بھی۔ انکی شاعری نعروں کی شاعری نہیں۔ مجموعی طور پر یہ شاعری کلاسیکیت ، رومانیت ، حقیقیت نگاری کا امتزاج اور عاشقانہ و نظریاتی شاعری کا نمونہ ہے۔

سنہ 1945 ء اختر کے لئے خوشیوں کی سوغات لے کر آیا اس سال ان کا بیٹا پیدا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے ’جادو‘ رکھا جو بعد میں ’’جاوید اختر‘‘ کے نام سے فلم انڈسٹری میں مشہور ہوئے۔

سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد ملک بھر میں ہو رہے فرقہ وارانہ فسادات سے تنگ آکر اختر گوالیار چھوڑ کر بھوپال آگئے۔

بھوپال میں وہ مشہور حمیدیہ کالج میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوگئے لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کا دل وہاں نہیں لگا اور وہ اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کے لئے 1949 میں ممبئی آ گئے۔

ممبئی پہنچنے پر انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کچھ دنوں تک وہ مشہور ناول نگار عصمت چغتائی کے یہاں بھی رہے۔

انہوں نے سب سے پہلے فلم ’شکایت‘ کے لئے نغمہ لکھا لیکن فلم کی ناکامی کے بعدانہیں اپنا فلمی کیریئر ڈوبتا نظر آیا لیکن انہوں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

آہستہ آہستہ ممبئی میں ان کی شناخت بنتی گئی لیکن سال 1952 میں انہیں گہرا صدمہ پہنچا جب ان بیگم کا انتقال ہو گیا۔

مزید پڑھیں:عوام کو باہمت بنانے والا شاعر: فیض احمد فیض

تقریباً چار سال تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کے بعد 1953 میں فلم ’نغمہ‘ میں گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں ’’بڑی مشکل سے دل کی بیقراری میں قرار آیا‘‘ کی کامیابی سے وہ فلم انڈسٹری میں خود کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

فلم نغمہ کی کامیابی کے بعد اختر کو اچھی فلموں کی پیشکش ملنے لگی۔ اس دوران، انہوں نے چھوٹے بجٹ کی فلموں کو بھی بنایا جس میں انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔اچانک هي ان کی ملاقات موسیقار اوپي نیر سے ہوئی جن کے موسیقی ہدایت میں انہوں نے فلم "باپ رے باپ" کیلئے "اب یہ بتا جائیں کہاں" اور "دیوانہ دل اب مجھے راہ دکھائے‘‘ نغمہ لکھے ۔ آشا بھونسلے کی آواز میں یہ نغمے کافی مقبول ہوئے۔

اس کے بعد وہ او پی نیر کے پسندیدہ موسیقار بن گئے۔ 1956 میں او پی نیر کی موسیقی سے سجی گرودت کی فلم سی آئی ڈی میں’اے دل ہے مشکل جینا یہاں ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے ممبئی میری جاں‘ کی کامیابی کے بعد انہوں نے کبھی موڑ کر نہیں دیکھا۔

ساٹھ کی دہائی میں اختر نے موسیقار خیام کی موسیقی میں بہت سے غیر فلمی نغمہ بھی لکھے۔

ان کے غیر فلمی گیتوں میں "اشعار میرا یوں تو زمانے کے لئے ہے، ہر ایک حسن تیرا، ہم سے بھاگا نہ کرو، راہی ہے دی طلب، تھر تھرا اٹھی ہے، ذرا سی بات پر ہر" جیسے نہ بھولنے والے نغمے شامل ہیں۔

سال 1976 میں اختر کے قیمتی شراکت کو دیکھتے ہوئے انہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

تقریباً چار دہائیوں کے اپنے فلمی کیریئر میں انہوں نے 80 فلموں کے لئے نغمے لکھے۔ اپنے نغموں سے سامعین کے دل میں خاص شناخت بنانے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار جاں نثار اختر 19 اگست 1976 کو اس دنیا کو یہ کہہ کر الوداع کہہ گئے۔

ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں

کبھی کبھی کوئی چہرا دکھائی دیتا ہے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.