بھوپال: حکومت کی جانب سے جاری کردہ پری میٹرک اسکالرشپ ابھی تک پری میٹرک سے نیچے کے طلبہ کو ملتی تھی، لیکن اب اسے نویں اور دسویں جماعت تک محدود کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری ایک نوٹس میں دی گئی ہے، جس کے بعد مسلم تنظیموں نے فکرمندی کا اظہار کیا۔ اس نوٹس کے بعد خصوصا ایسی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے جو مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہیں، یا پھر اسکول ڈراپ آؤٹ کی شرح کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
دراصل مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور نے جاری نوٹس میں کہا ہے کی درجہ اول سے آٹھویں تک تعلیم کو ایجوکیشن ایکٹ 2009 کے ذریعہ لازمی قرار دیا گیا ہے اور ہر بچے کو ان درجات میں حکومت مفت تعلیم فراہم کرے گی۔ اس لیے اب ان درجات کے بچوں کو پری میٹرک اسکالرشپ نہیں دی جائے گی۔ اس نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرکزی وزیر برائے سماجی انصاف و تفویض اختیارات اور قبائلی امور نے مذکورہ درجات کے بچوں کو اسکالرشپ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت برائے اقلیتی امور نے بھی پری میٹرک اسکالرشپ صرف نویں اور دسویں جماعت تک محدود رکھے گی۔ قابل ذکر ہے کہ پری میٹرک اسکالرشپ پہلے چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک کے بچوں کو دی جاتی تھی۔Reaction of muslim organizations to Pre-Matric Scholarship in MP
اس کے تحت 500 سو روپے سالانہ داخلہ فیس اور 350 روپے کیش فیس کی شکل میں دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ درجہ اول سے پانچویں تک کے بچوں کو 100 روپے ماہانہ اسکالرشپ دی جا رہی تھی اور چھٹی جماعت سے دسویں جماعت کے بچوں کو 600 روپے ماہانہ دیا جا رہا تھا۔ یہ اسکیم یو پی اے حکومت میں 2007 اور 2008 میں مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کے پیش نظر ان میں تعلیم کے فروغ کے لیے شروع کی گئی تھی، جس سے دیگر اقلیتی طبقے بھی مستفید ہو رہے تھے۔
پری میٹرک اسکالرشپ کے بند کیے جانے پر مدھیہ پردیش علماء بورڈ کے صدر قاضی انس علی نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے مرکزی حکومت کی جانب سے اسکالرشپ بند کرنے کا اعلان ہوا ہے، اس میں صرف مسلم اقلیت ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتی طبقے بھی شامل ہیں، لیکن جس طرح سے اسکالرشپ کو بند کردیا گیا ہے وہ بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ انہوں نے کہا جتنے بھی اقلیتی طبقات ہے، اگر انہیں اسکالرشپ نہیں ملے گی تو ان کے لئے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں حکومت سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کے ویشواس کے نعرے بلند کرتی ہے۔ تعلیم کے حصول کی بات کرتی ہے لیکن وہی حکومت طلبہ کی اسکالر شپ کو بند کرنے کا اعلان کرتی ہے، جس کے سبب طلبہ کے لئے حصول تعلیم مشکل ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا یہ صاف طور سے حکومت کا دوہرا چہرہ ہے جو کہ صرف اقلیتوں کے لئے نظر آ رہا ہے۔ ہر جگہ سے اقلیتوں کو دی جانے والی سہولیات کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں حکومت یہ نعرہ بلند کرتی ہے کہ 'پڑھے گا ہندوستان، تو بڑھے گا ہندوستان' لیکن وہی حکومت اس نعرے کے مخالف کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا جس طرح کے اقدامات اقلیتوں کے لئے کئے جا رہے ہیں، ان کو اس سے بڑا نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا اقلیتوں کے پاس نہ تو حکومت ہے اور نہ ہی ان کی آواز بلند کرنے والا کوئی ادارہ ہے۔ اقلیتوں کے پاس اگر کوئی ہتھیار ہے تو وہ ہے تعلیم اور اگر حکومت اس طرح سے وظائف بند کر دے گی، تو اقلیتی طبقات کس طرح سے آگے بڑھے گی اس لئے حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا چاہیے۔
مزید پڑھیں:۔ درج فہرست ذاتوں کے طلبا کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ پر نظرثانی
وہیں بھوپال کے طوبہ انسٹیوٹ آف مورل ایجوکیشن کے پرنسپل محمد جاوید مصباحی نے کہا حکومت طلبہ کو جو اسکالرشپ دیتی تھی اس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ طلبہ کی فیس آر ٹی آئی کے تحت براہ راست اسکول میں جمع کر ادی جاتی تھی اور فیس کے جمع ہونے کے بعد بھی اسکول میں کئی ایسی ایکٹیویٹی ہوتی ہے، جس میں ان کو بہت آسانی ہوتی ہے۔ وہیں پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو اس اسکیم سے بہت فائدہ پہنچتا تھا لیکن حکومت کے اس فیصلہ سے طلبہ کا مسقبل اندھیرے میں نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت جس طرح سے یہ کہتی آئی ہے کہ 'سب پڑھیں سب بڑھیں' اس بات پر قائم رہے اور جو فیصلہ لیا گیا ہے اس پر ایک بار پھر نظر ثانی کرے۔