ضلع گیا کے شیرگھاٹی میں واقع قمر علی سلطان کا مقبرہ فن تعمیر کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تاریخ مغلیہ سلطنت سے قبل کی ہے بلکہ اس کا اسٹریکچر افغان فن تعمیر کا نمونہ بھی ہے۔
یہ مقبرہ محکمہ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے اور اسے افغان فن تعمیر کا بہترین نمونہ قرار دیا گیا۔ قمر علی سلطان مقبرہ کے حوالے سے مورخین تاریخ بتاتے ہیں کہ بادشاہ شیرشاہ سوری کے زمانے میں
کا اچھا خاصا اثر رہا ہے چونکہ شیرگھاٹی اور گیا کا علاقہ شیر شاہ سوری کے نہ صرف ماتحت رہا بلکہ یہاں ان کے اثرات مرتب تھے۔
بادشاہ شیرشاہ سوری کا قمر علی سلطان سے گہرا لگاؤ تھا اور انہوں نے جی ٹی روڈ کی تعمیر کے دوران مقبرہ کی تعمیر کرایا حالانکہ اس تاریخ پر تضادات بھی ہیں کچھ کا ماننا ہے کہ بادشاہ وقت اورنگ زیب نے اس کی تعمیر کرایا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ افغان فن تعمیر کا نمونہ ہونے کے باوجود اس کے پختہ ثبوت نہیں ہیں کہ کس بادشاہ کے زمانے میں اس کی تعمیر ہوئی ہے لیکن شیرگھاٹی کے باشندوں کے درمیان بادشاہ شیرشاہ سوری کے ذریعے ہی تعمیر کرائے جانے کی بات گشت کرتی ہے۔
صحافی محمد علی بتاتے ہیں کہ بادشاہ شیرشاہ سوری کے زمانے میں افغان ماڈل کا گہرا اثر رہا ہے اور ان کے زمانے میں جو بھی عمارت یا مقبرے تعمیر ہوئے ہیں وہ زیادہ تر افغان ماڈل پر ہی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کس عیسوی میں اسکی تعمیر ہوئی ہے اسکے پختہ ثبوت نہیں ملتے ہیں لیکن بزرگوں کے قول سے یہی مانا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری ہی نے اسکی تعمیر کرائی ہے۔
اس عمارت کو چار سو برس ہوچکے ہیں اور اس سے متصل ایک قبرستان بھی ہے جس میں کچھ قبروں سے پرانے ہونے کے نشانات ملتے تھے جو کہ اب وہ بھی مٹ چکے ہیں۔
محمد علی کہتے ہیں کہ افغان فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہونے کے ساتھ یہ مذہبی اعتبار سے بھی کافی اہم ہے کیونکہ قمر علی سلطان علیہ الرحمہ ایک پایے کے بزرگ ہیں۔
قمر علی سلطان کی تاریخ کے حوالے سے جو تاریخ کہی جاتی ہے وہ چار سو سال سے زیادہ کی ہے، معروف ادیب و بزرگ شاعرناوک حمزہ پوری اپنی کتاب آثار آثار میں تفصیل سے ذکر کرتے ہیں کہ بادشاہ وقت علاقے میں لوگوں پر ظلم و زیادتی اور تشدد کررہا تھا تبھی قمر علی سلطان کو یہاں بھیجا گیا اور قمر علی سلطان اور بادشاہ وقت کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی اور اس میں فتح قمر سلطان علی کو حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ جس جگہ پر آج مزار شریف ہے وہیں پر دوران جنگ قمر علی کی دستار مبارک املی کے درخت پر الجھ گئی۔ اسی دوران انہوں نے اپنے رفقاء کو ہدایت دی کہ اب یہی جگہ ان کی ہے۔ قمر علی سلطان کی حیات مبارک بھی دین کی حمایت ونصرت میں گزری نیز بعد وصال بھی ایک دنیا آپ کے فیض روحانی سے مستفیض ہورہی ہے۔
مزید پڑھیں:
گیا: کامیابی کے سفر میں مفلسی بڑی رکاوٹ
سبھی مذہب و برادری کے لوگ یہاں آکر عقیدت ومحبت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ شیرگھاٹی اور اطراف کے لوگوں کے ساتھ سابق ریاستی وزیر ونود یادو کی پہل و کوششوں کے بعد محکمہ آثار قدیمہ میں شامل کراسکی مزید ترقی کے لیے کام شروع ہوئے ہیں۔