ETV Bharat / bharat

مغربی بنگال کے مجوزہ انتخابات اور مسلم اقلیت کا اثرو نفوذ - ایم آئی ایم

مغربی بنگال میں انتخابی پتنگ جوں جوں اُڑان بھرے گی، زمینی سطح پر کئی پارٹیوں کی جڑیں کمزور ہوتی جائیں گی اور بظاہر اس کا فائدہ بھاجپا کو ملے گا۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے مثبت و منفی اثرات کے تحت پیش ہے ای ٹی وی بھارت کے کوآرڈینیٹر دیپانکر بوس کی تجزیاتی تحریر

مغربی بنگال کے مجوزہ انتخابات
مغربی بنگال کے مجوزہ انتخابات
author img

By

Published : Feb 5, 2021, 9:42 AM IST

آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں کم از کم دس نشستوں پر الیکشن لڑنے کی تیاریاں پہلے ہی شروع کرلی ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی اس ریاست میں مسلم اقلیت کے ووٹ بینک کی پولرائزیشن اور گروہ بندی کا مسئلہ ایک بار پھر اپنا سر ابھارنے لگا ہے۔ اس صورتحال کو مزید تقویت اُس وقت ملی جب ایک اور مسلم مذہبی لیڈر عباس صدیقی نے اپنی تنظیم ’انڈین سیکولر فرنٹ‘ قائم کرکے میدان میں جھونک دی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ مل کر وہ کئی لوگوں، خاص طور سے حکمران ترنمول کانگریس سے جڑے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

اقلیتوں کو ایک ووٹ بینک کے بطور تصور کرنا بنگال کی سیاست کی ایک دیرینہ روایت رہی ہے اور یہ سوچ صرف انتخابات کے موقعے پر ہی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے بلکہ اس کی جھلکیاں ممتا بینرجی کے پوسٹرز اور بینرز میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور اُن کے رویہ سے بھی اس سوچ کی عکاسی ہوتی رہتی ہے۔ یہ بینرز اور پوسٹرز مخصوص مذہبی طبقوں کی رسومات اور تہواروں کے مواقع پر منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے ضمن میں ترنمول کانگریس حکومت کی جانب سے ائمہ مساجد اور موذنین کے ماہانہ وظیفہ فراہم کرنے کی منظوری کا فیصلہ ممتا بینرجی کا ایک تازہ اقدام رہا ہے۔

بائیں بازو کے محاذ، جس نے 34 سال تک بنگال میں حکومت کی ہے، بھی مسلم ووٹروں کو رُجھانے کی اس سیاسی دوڈ میں پیچھے نہیں ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کے پاس انتخابات کے مواقعوں پر مسلم اقلیت سے استفادہ حاصل کرنے کے اپنے کچھ الگ ہی حربے ہیں۔ امداد کی فراہمی، مدرسہ بورڈ کی ادارہ سازی اور مسلم سٹیڈیز کےلئے ایک یونیورسٹی کے قیام جیسے اقدامات کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ کمونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم) نے اپنے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں عندیہ دیا تھا کہ وہ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کو دس فیصد ریزرویشن دے گی۔ تاہم وہ اسے روبہ عمل نہیں لا سکی کیونکہ اس کے بعد وہ اقتدار سے باہر ہوگئی۔ انتخابات میں مسلم رائے دہندگان کے ایک کلیدی کردار کے پیشن نظر کوئی بھی پارٹی اُنہیں نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ تاہم بی جے پی نے سال 2019ء کے عام انتخابات میں اس معاملے میں ایک مختلف طریقے سے نمٹ لیا۔

بنگال کے انتخابات میں رائے دہندگان کی پولرائزیشن کبھی اتنی عیاں نہیں رہی ہے، جتنی یہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں دیکھنے کو ملی۔ سال 2001ء اور 2006ء کے انتخابات میں بی جے پی حاشیئے پر کھڑی تھی۔ تاہم اس پارٹی نے سال 1998،1999 اور 2004ء کے عام انتخابات میں ترنمول کانگریس کے جونیئر ساتھی رہی۔ لیکن جب جہاں تک اسمبلی انتخابات کا تعلق ہے، ممتا کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ 2011ء کے اسمبلی انتخابات، جن میں ممتا نے بالآخر بائیں بازو کے محاذ کو شکست سے دوچار کردیا، میں بھی اُنہوں نے بی جےپی کے بجائے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو محض 4.1 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

سال 2016ء میں ممتا نے اکیلے الیکشن لڑا اور بائیں بازو، بشمول کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے مقابلے میں فتح حاصل کرلی۔ بی جے پی کو بنگال میں لگ بھگ دس فیصد ووٹ شیئر حاصل ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں دیکھنے کو ملی جب جبکہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی قیادت میں بی جے پی مرکز میں حکومت قائم کرچکی تھی۔ لیکن سال 2019ء کے عام انتخابات میں بی جی پی مغربی بنگال میں چالیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کلیدی اپوزیشن کے بطور اُبھر کر سامنے آگئی۔ کیا بی جے پی کی اس کامیابی کا سبب پارٹی موجودہ پہنچان کا نتیجہ ہے۔ یا پھر بائیں بازو کے حامی رائے دہندگان، جو مجموعی رائے دہندگان کا 27 فیصد تھے، کا گھٹ کر 7.5 فیصد رہ جانا بی جے پی کے عروج کی وجہ بن گئی۔ یاپھر کانگریس اور ترنمول کے ووٹ شیئر میں بالترتیب 7 اور 2فیصد کے تنزل کا فائدہ بی جے پی کو ملا؟

بی جے پی ہندو ووٹروں کے ساتھ ساتھ مہاجر ہندو ووٹروں کو آسانی کے ساتھ لبھانے میں کامیاب ہوگئی۔ جب اس طرح کی پولرائزیشن کرنے میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تو اس کے بعد سال 2016ء اور 2019ء کے درمیان بڑے پیمانے پر بائیں بازو کے حامیوں کا زعفرانی پارٹی کی جانب راغب ہوجانے سے پارٹی کو فائدہ پہنچا۔ ایک سرسری جائزہ کے مطابق بائیں بازو سے جڑے ایک کروڑ رائے دہندگان بی جے پی کی گود میں چلا گیا۔

نتیجے کے طور پر بی جے پی کو 2019ء کے الیکشن میں مغربی بنگال میں 18 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اس طرح سے یہ وہم اور جھوٹا بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ مغربی بنگال میں مسلم اقلیت کبھی بھی بی جے پی کے حق میں ووٹ نہیں دیتی۔ حالانکہ یہ ایک بحث طلب سوال ہے کہ کیا واقعی بی جے پی نے 2019ء کے انتخابات میں مسلم ووٹ حاصل ہوئے ہیں؟ یا پھر مسلمان رائے دہندگان بائیں بازو کے محاذ اور کانگریس کے کھاتے میں چلے گئے۔ بہرحال اعداد و شمار کافی حد تک حقائق بیان کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر لوک سبھا حلقے مالڈا میں 64 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں۔ سال 2019ء کے انتخابات میں اس سیٹ سے کانگریس کے اُمیدوار کو 4,44,270 ووٹ (34.73 فیصد) اور ترنمول کانگریس کے اُمیدوار کو 3,51,353 ووٹ (27.47فیصد) ملے۔ بی جے پی کو اس نشست سے 4,36,048 (34.09 فیصد) ووٹ حاصل ہوئے۔ اسی طرح جھانگی پورہ لوک سبھا حلقہ انتخاب میں 82 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں۔ یہاں بی جے پی کو 24.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ ترنمول کانگریس کے اُمیدوار کو 43.15 فیصد اور کانگریس اُمیدوار کو 19.61 فیصد ووٹ ملے۔

ان دو لوک سبھا انتخابی حلقوں سے متعلق یہ اعداد و شمار حقائق خود بیان کررہے ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق مغربی بنگال میں مسلم رائے دہندگان لگ بھگ 102 اسمبلی حلقوں کے انتخابی نتائج کو اثر انداز کرنے کے اہل ہیں۔ سرسری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد مجموعی اسمبلی نشستوں کا 35 فیصد ہیں۔

2019ء کے انتخابی تجربات کے پیش نظر اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ صرف ہندو رائے دہندگان کے ساتھ ہی اپنی اُمیدیں وابستہ کرے گی۔ کیونکہ ’سیکولر‘ممتا بینرجی سے سیاسی نبرد آزمائی میں بی جے پی کے حق میں اگر مسلم ووٹ آجاتے ہیں تو یہ اس کے لئے خوش آیند بات ہوگی۔

اب جبکہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اپنے طور سے انتخابی میدان میں کود پڑی ہے اور دوسری جانب عباس صدیقی فرفرا شریف یعنی ایک با اثر حلقہ انتخاب کے تمام پیزادوں کی پشت پر کھڑے ہیں، یہ صورتحال اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ مغربی بنگال کے مسلم باشندگان ان سے جڑے ووٹ بینک کے لیبل جھاڑنے پر آمادہ ہیں۔ کیا سیاسی جماعتوں اس تبدیلی سے استفادہ حاصل کرنے کےلئے تیار ہیں؟ یعنی کیا وہ مسلمانوں کو ایک مجموعی ووٹ بینک کے بجائے عام رائے دہندگان تصور کرنے کے لئے تیار ہیں؟

بنگال کے انتخابات سے جڑی ریاضی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔

آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں کم از کم دس نشستوں پر الیکشن لڑنے کی تیاریاں پہلے ہی شروع کرلی ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی اس ریاست میں مسلم اقلیت کے ووٹ بینک کی پولرائزیشن اور گروہ بندی کا مسئلہ ایک بار پھر اپنا سر ابھارنے لگا ہے۔ اس صورتحال کو مزید تقویت اُس وقت ملی جب ایک اور مسلم مذہبی لیڈر عباس صدیقی نے اپنی تنظیم ’انڈین سیکولر فرنٹ‘ قائم کرکے میدان میں جھونک دی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ مل کر وہ کئی لوگوں، خاص طور سے حکمران ترنمول کانگریس سے جڑے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

اقلیتوں کو ایک ووٹ بینک کے بطور تصور کرنا بنگال کی سیاست کی ایک دیرینہ روایت رہی ہے اور یہ سوچ صرف انتخابات کے موقعے پر ہی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے بلکہ اس کی جھلکیاں ممتا بینرجی کے پوسٹرز اور بینرز میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور اُن کے رویہ سے بھی اس سوچ کی عکاسی ہوتی رہتی ہے۔ یہ بینرز اور پوسٹرز مخصوص مذہبی طبقوں کی رسومات اور تہواروں کے مواقع پر منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے ضمن میں ترنمول کانگریس حکومت کی جانب سے ائمہ مساجد اور موذنین کے ماہانہ وظیفہ فراہم کرنے کی منظوری کا فیصلہ ممتا بینرجی کا ایک تازہ اقدام رہا ہے۔

بائیں بازو کے محاذ، جس نے 34 سال تک بنگال میں حکومت کی ہے، بھی مسلم ووٹروں کو رُجھانے کی اس سیاسی دوڈ میں پیچھے نہیں ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کے پاس انتخابات کے مواقعوں پر مسلم اقلیت سے استفادہ حاصل کرنے کے اپنے کچھ الگ ہی حربے ہیں۔ امداد کی فراہمی، مدرسہ بورڈ کی ادارہ سازی اور مسلم سٹیڈیز کےلئے ایک یونیورسٹی کے قیام جیسے اقدامات کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ کمونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم) نے اپنے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں عندیہ دیا تھا کہ وہ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کو دس فیصد ریزرویشن دے گی۔ تاہم وہ اسے روبہ عمل نہیں لا سکی کیونکہ اس کے بعد وہ اقتدار سے باہر ہوگئی۔ انتخابات میں مسلم رائے دہندگان کے ایک کلیدی کردار کے پیشن نظر کوئی بھی پارٹی اُنہیں نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ تاہم بی جے پی نے سال 2019ء کے عام انتخابات میں اس معاملے میں ایک مختلف طریقے سے نمٹ لیا۔

بنگال کے انتخابات میں رائے دہندگان کی پولرائزیشن کبھی اتنی عیاں نہیں رہی ہے، جتنی یہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں دیکھنے کو ملی۔ سال 2001ء اور 2006ء کے انتخابات میں بی جے پی حاشیئے پر کھڑی تھی۔ تاہم اس پارٹی نے سال 1998،1999 اور 2004ء کے عام انتخابات میں ترنمول کانگریس کے جونیئر ساتھی رہی۔ لیکن جب جہاں تک اسمبلی انتخابات کا تعلق ہے، ممتا کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ 2011ء کے اسمبلی انتخابات، جن میں ممتا نے بالآخر بائیں بازو کے محاذ کو شکست سے دوچار کردیا، میں بھی اُنہوں نے بی جےپی کے بجائے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو محض 4.1 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

سال 2016ء میں ممتا نے اکیلے الیکشن لڑا اور بائیں بازو، بشمول کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے مقابلے میں فتح حاصل کرلی۔ بی جے پی کو بنگال میں لگ بھگ دس فیصد ووٹ شیئر حاصل ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں دیکھنے کو ملی جب جبکہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی قیادت میں بی جے پی مرکز میں حکومت قائم کرچکی تھی۔ لیکن سال 2019ء کے عام انتخابات میں بی جی پی مغربی بنگال میں چالیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کلیدی اپوزیشن کے بطور اُبھر کر سامنے آگئی۔ کیا بی جے پی کی اس کامیابی کا سبب پارٹی موجودہ پہنچان کا نتیجہ ہے۔ یا پھر بائیں بازو کے حامی رائے دہندگان، جو مجموعی رائے دہندگان کا 27 فیصد تھے، کا گھٹ کر 7.5 فیصد رہ جانا بی جے پی کے عروج کی وجہ بن گئی۔ یاپھر کانگریس اور ترنمول کے ووٹ شیئر میں بالترتیب 7 اور 2فیصد کے تنزل کا فائدہ بی جے پی کو ملا؟

بی جے پی ہندو ووٹروں کے ساتھ ساتھ مہاجر ہندو ووٹروں کو آسانی کے ساتھ لبھانے میں کامیاب ہوگئی۔ جب اس طرح کی پولرائزیشن کرنے میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تو اس کے بعد سال 2016ء اور 2019ء کے درمیان بڑے پیمانے پر بائیں بازو کے حامیوں کا زعفرانی پارٹی کی جانب راغب ہوجانے سے پارٹی کو فائدہ پہنچا۔ ایک سرسری جائزہ کے مطابق بائیں بازو سے جڑے ایک کروڑ رائے دہندگان بی جے پی کی گود میں چلا گیا۔

نتیجے کے طور پر بی جے پی کو 2019ء کے الیکشن میں مغربی بنگال میں 18 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اس طرح سے یہ وہم اور جھوٹا بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ مغربی بنگال میں مسلم اقلیت کبھی بھی بی جے پی کے حق میں ووٹ نہیں دیتی۔ حالانکہ یہ ایک بحث طلب سوال ہے کہ کیا واقعی بی جے پی نے 2019ء کے انتخابات میں مسلم ووٹ حاصل ہوئے ہیں؟ یا پھر مسلمان رائے دہندگان بائیں بازو کے محاذ اور کانگریس کے کھاتے میں چلے گئے۔ بہرحال اعداد و شمار کافی حد تک حقائق بیان کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر لوک سبھا حلقے مالڈا میں 64 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں۔ سال 2019ء کے انتخابات میں اس سیٹ سے کانگریس کے اُمیدوار کو 4,44,270 ووٹ (34.73 فیصد) اور ترنمول کانگریس کے اُمیدوار کو 3,51,353 ووٹ (27.47فیصد) ملے۔ بی جے پی کو اس نشست سے 4,36,048 (34.09 فیصد) ووٹ حاصل ہوئے۔ اسی طرح جھانگی پورہ لوک سبھا حلقہ انتخاب میں 82 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں۔ یہاں بی جے پی کو 24.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ ترنمول کانگریس کے اُمیدوار کو 43.15 فیصد اور کانگریس اُمیدوار کو 19.61 فیصد ووٹ ملے۔

ان دو لوک سبھا انتخابی حلقوں سے متعلق یہ اعداد و شمار حقائق خود بیان کررہے ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق مغربی بنگال میں مسلم رائے دہندگان لگ بھگ 102 اسمبلی حلقوں کے انتخابی نتائج کو اثر انداز کرنے کے اہل ہیں۔ سرسری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد مجموعی اسمبلی نشستوں کا 35 فیصد ہیں۔

2019ء کے انتخابی تجربات کے پیش نظر اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ صرف ہندو رائے دہندگان کے ساتھ ہی اپنی اُمیدیں وابستہ کرے گی۔ کیونکہ ’سیکولر‘ممتا بینرجی سے سیاسی نبرد آزمائی میں بی جے پی کے حق میں اگر مسلم ووٹ آجاتے ہیں تو یہ اس کے لئے خوش آیند بات ہوگی۔

اب جبکہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اپنے طور سے انتخابی میدان میں کود پڑی ہے اور دوسری جانب عباس صدیقی فرفرا شریف یعنی ایک با اثر حلقہ انتخاب کے تمام پیزادوں کی پشت پر کھڑے ہیں، یہ صورتحال اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ مغربی بنگال کے مسلم باشندگان ان سے جڑے ووٹ بینک کے لیبل جھاڑنے پر آمادہ ہیں۔ کیا سیاسی جماعتوں اس تبدیلی سے استفادہ حاصل کرنے کےلئے تیار ہیں؟ یعنی کیا وہ مسلمانوں کو ایک مجموعی ووٹ بینک کے بجائے عام رائے دہندگان تصور کرنے کے لئے تیار ہیں؟

بنگال کے انتخابات سے جڑی ریاضی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.