علمائے ہند اور صحافیوں کی جانب سے حیدرآباد میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی ظلم وتشدد پر مبنی ہے۔ فلسطین، فلسطینیوں اور مسلمانوں کا تھا اور رہے گا۔ دو ریاستی حل ناممکن ہے اس کا کوئی تصور نہیں،آج وقت آگیا ہے کہ اسرائیلی ظلم کے خلاف بلامسلک ومذہب متحدہ طور پر تما م اٹھ کھڑے ہوں اور نہتے فلسطینیوں کو ہر سطح پر تائید، حمایت اور مدد فراہم کی جائے۔
مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں اور مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ سات دہائیوں سے انسانیت کے علمبرداروں سے اس بات کا تقاضہ کررہا ہے کہ وہ انصاف کی بنیادوں پر بیت المقدس، فلسطین اور فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم اور اس کے قبضہ سے آزاد کرائیں۔جنوبی ہند کے تاریخی شہر حیدرآباد میں تنظیم جعفریہ کی جانب سے دفتر علمائے ہند پر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا، جس کی صدارت ونگرانی تنظیم جعفریہ کے صدر مولانا سید تقی رضا عابدی نے کی۔ اس پریس کانفرنس کو شہر کے علماء اور مختلف صحافتی اداروں سے وابستہ صحافیوں نے مخاطب کیا۔ پریس کانفرنس کا آغاز قراءت کلام مجید سے کیا گیا۔ اس اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے نگران جلسہ مولانا سید تقی رضا عابدی نے کہا کہ موجودہ وقت دراصل ہم سے امتحان لے رہا ہے۔
دیکھنا یہی ہے کہ اس امتحان میں کون کامیاب ہوگا اور کون ناکام ہوگا۔ یہ امتحان ساری انسانیت سے ہے، مسئلہ کسی مسلک یا مذہب کا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ انسانیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے کہ آج فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے انسانیت کا قتل عام ہورہا ہے۔ معصوم بچے چاہے کسی مذہب کے ہوں وہ بچے ہیں اور ان کو نشانہ بناکر قتل کرنا درندگی اور شیطانیت ہے، یہی درندگی اور شیطانیت اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کررہا ہے۔
دراصل اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ اسرائیلی جنگی طیارے عام رہائشیوں کو نشانہ بناتے ہوئے فلسطینی بچوں کا چن چن کر قتل عام کررہے ہیں۔ اسرائیل کی بربریت کا عالم یہ ہوچکا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھی بمباری کررہا ہے۔آج جو کوئی بھی اسرائیل کی کھلی دہشت گردی کی پردہ داری کررہے ہیں وہ ظلم کا ساتھ دیتے ہوئے خود بھی اس سفاکیت کے مجرم بن رہے ہیں۔
اسرائیل وہ ناجائز ریاست ہے جس نے پچھلے 70 برسوں میں فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا کردی ہے۔ حقیقتاً اسرائیل کی بنیاد ہی ظلم وتشدد پر رکھی گئی ہے۔ مولانا تقی رضا عابدی نے انقلاب اسلامی ایران کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس انقلاب کا آغاز وقت کے شاہ کے خلاف اسی وجہ سے تھا کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا جس کی مخالفت میں ایرانی اٹھ کھڑے ہوئے، چنانچہ آج بھی اسرائیل کا ساتھ دینے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔
مولانا نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی مزاحمت کو سلام کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کہتا ہے کہ ظالموں کے خلاف ڈٹ جاؤ اور آج مزاحمتی تحریک حماس ظالم اسرائیل کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے اجلاسوں، قراردادوں کو بے معنی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے خلاف عملی سخت اقدامات پر زور دیا۔ سینئر صحافی شجیع اللہ فراست نے پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے فارمولے کو یکسر خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناممکن ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مسلسل غزہ پر ہونے والی بمباری اور مقبوضہ فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی تشدد کی مذمت کرنے کے لیے آج ہم جمع ہیں۔ فلسطین میں ہونے والی تازہ شہادتوں کے اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی بربریت میں شہید ہونے والوں میں ہر تیسرا اور چوتھا ایک معصوم بچہ ہے۔ غزہ ایک ایسا شہر ہے جو پہلے ہی سے تباہ حال ہے اور ایک کھلی جیل بنا ہوا ہے اس کے باوجود اس کو مزید تباہ کیا جارہا ہے۔جو کچھ یہاں انفرااسٹرکچر ہے اس کو بھی برباد کیا جارہا ہے۔
فلسطین میں ہونے والے اس ظلم کا آغاز آج نہیں بلکہ اس کی ابتدا پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ دردبھری کہانی ہے جس کو دنیا کے روبرو بار بار پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل فلسطینیوں پر ظلم کی ابتدا صیہونیت کے آغاز سے ہوتی ہے۔ یہودیوں میں کچھ وہ ہیں جوعام زندگی بسر کرتے ہیں لیکن بہت سے وہ صیہونی ہیں جو اپنے سیاسی، معاشی اور انتہاپسندانہ ایجنڈوں پر کام کررہے ہیں جس میں ان کے علاوہ دوسروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
دراصل اسی بے رحم صیہونیت نے 19ویں صدی کے اواخر میں ایسے حالات پیدا کیے اور برطانیہ، فرانس کے ہمراہ دیگر پشت پناہوں کی حمایت کے ساتھ بالفور اعلامیہ کروایا جس میں یہودیوں کے لیے ایک ملک کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ان طاقتوں نے ایک جانب یہودیوں کی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا اور دوسری جانب خطہ عرب میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف عربوں کو استعمال کیا گیا اور ان سے سودے بازی کی گئی کہ اگر وہ عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف ان کا ساتھ دیں گے تو انھیں پوری عرب دنیا کا حکمران بنادیا جائے گا۔
اس دوران صیہونی تحریک چلی اور بڑی تعداد میں یوروپ سے یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسایا جانے لگا۔ آگے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لیگ آف نیشن کے ذریعہ فلسطین میں ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کو تسلیم کیا گیا۔ شجیع اللہ فراست نے اسرائیل مخالف فلسطینی کاز کی ہر سطح پر حمایت وتائید پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ دنیا کے سامنے اس بات کو بار بار دہرایا جائے کہ کس طرح سے فلسطین میں ایک ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔
سینئر صحافی سید باقر نے پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ مسئلہ فلسطین کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ صیہونیت ہے۔ وہ صرف فلسطین پر قبضہ نہیں بلکہ وہ مدینہ پاک تک اپنے گریٹر اسرائیل کی توسیع کا ناپاک منصوبہ رکھتے ہیں۔ سید باقر نے اپنے پانچ نکات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ وفلسطین کی آزادی کی لڑائی صرف اسرائیل ہی سے نہیں بلکہ ان منافقین سے بھی ہے جو شخصی، تنظیمی یا حکومتی طور پر اسرائیل کے کھلے اور چھپے ہوئے مددگار بنے ہوئے ہیں، یہ وہ غدار ہیں جو فلسطین کے کاز میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اسرائیل کی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سلطنت عثمانیہ سے غداری کرنے والے ٹولوں سے لے کر صدی کی ڈیل تک اپنا منہ چھپانے والے ایک کے بعد ایک اب بے نقاب ہورہے ہیں۔ اگر آج بھی ان کی کھل کر مخالفت نہیں کی جائے گی تو ہر اہل منصب کو کل بروز محشر خدا کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا ہوگا۔ اس لیے کہ ظالم کا ساتھ دینے والے بھی انھیں کے ساتھ ہوں گے۔
فلسطین کا معاملہ صرف کسی زمین کے تکڑے کا نہیں بلکہ یہاں مسلمانوں کا تیسرا حرم پاک ہے اور اس کی فضیلت اور اس سے وابستگی کے لئے ہر سطح پر شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ دراصل اسرائیل اپنے چار نکاتی ایجنڈے پر کام کررہا ہے جس میں ایک بڑی جنگ کروانا، گریٹر اسرائیل کا قیام، مسجد اقصیٰ کا انہدام او ر ہیکل سلیمانی کی تعمیر شامل ہے۔ آج فلسطینی اپنے معصوم بچوں کی قربانیاں دے کر مسجداقصیٰ اور ارض فلسطین کی حفاظت کررہے ہیں۔ یقیناًکوئی بھی مقصد کا حصول بغیر قربانی کے ممکن نہیں آج ہم کو بھی عملی طور پر فلسطین کی آزادی کے لیے قربانی کو پیش کرنے کے لیے تیار ہونا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ مسلم حکمرانوں سے اب کوئی امید نہیں۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ عنقریب ایسے عوامی انقلاب برپا ہوں گے جو فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے حقیقی معنوں میں راہیں ہموار کریں گے۔ سینئر صحافی سید جعفر حسین نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کا قتلِ ناحق کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس بے سروسامانی کے باوجود اسرائیل سے نہ صرف مقابلہ کررہی ہے بلکہ خدا کی مدد سے صیہونی منصوبوں کو ناکام بنارہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج اسرائیل دنیا میں ذلیل و رسوا ہورہا ہے۔14 ممالک نے آج اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ وہ عرب حکمران جنھوں نے اسرائیل سے تعلقات بنائے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اس پر از سرنو غور کریں اور امت مسلمہ کے لیے اسرائیل کے ساتھ تمام رشتے منقطع کیے جائیں۔ سینئر صحافی مجتبیٰ زیدی نے اسرائیلی بربریت کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ انھوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے مسلم دنیا کے اتحاد پر زور دیا۔