ETV Bharat / bharat

اسمبلیوں کے انتخابات: ای ٹی وی بھارت ٹیم کا ایک سروے، ایک جائزہ، ایک تخمینہ

دو مئی کو جب چار ریاستوں آسام، مغربی بنگال، تامل ناڈو، کیرلا اور یونین ٹریتری پانڈی یچری میں ای وی ایمز کھولے جائیں گے تو بہت سارے اُمیدواروں کا مستقبل آشکار ہوجائے گا۔ ان میں مختلف ریاستوں سے وابستہ وہ چھ اُمید وار بھی شامل ہیں ،جو حال ہی کے ایام میں کووِڈ کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں۔ ان اُمیدواروں کو انتخابی نتائج جاننے کا موقعہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ تاہم یہ انتخابات آنے والے کچھ وقت تک اس لئے ضرور یاد رکھے جائیں گے کیوں کہ ان کے انعقاد کے دوران کئی غیر معمولی واقعات رونما ہوئے ہیں۔

post poll projections east swaying south decisive 2021 state election promise to be hair raiser
اسمبلیوں کے انتخابات: ای ٹی وی بھارت ٹیم کا ایک سروے، ایک جائزہ، ایک تخمینہ
author img

By

Published : Apr 30, 2021, 10:47 AM IST

Updated : Apr 30, 2021, 10:57 AM IST

مغربی بنگال

جتنی توجہ 294 نشستوں پر مشتمل مغربی بنگال کی اسمبلی کے حالیہ انتخابات کو ملی، بھارت کے کسی بھی ریاستی انتخابات کو کبھی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے آٹھ مراحل میں مغربی بنگال کے انتخابات کرانے سے لیکر بعد میں رونما ہونے والے کئی واقعات اپنی نوعیت کے قابل توجہ واقعات رہے۔ ان میں زعفرانی قوت ( بھاجپا) کی جانب سے ممتا بینرجی کی قیادت والی حکمران ترنمول کانگریس سے اقتدار چھیننے کی جستجو، بائیں بازو اور کانگریس کی جانب سے آل انڈیا سیکولر فرنٹ (اے آئی ایس ایف)، جسے مسلم مذہبی لیڈر پیرزادہ عباس صدیقی قائم کیا ہے، کے ساتھ اتحاد جیسے واقعات شامل ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے مغربی بنگال کے انتخابات اپنی نوعیت کے منفرد انتخابات تھے۔ اسمبلی کی 292 سیٹوں پر ہی الیکشن ہوئے کیونکہ دو حلقہ ہائے انتخابات سے وابستہ دو اُمیدوار کووِڈ کی وجہ سے فوت ہوئے۔

ممتا، جن پر ریاستی کے جنوبی حصوں میں اقربا پروری اور پاسداری سے جڑے الزامات کا سامنا ہے، نے بہادری کے ساتھ اور لنگر لنگوٹ کس کر اپنے نئے حریف یعنی بی جے پی کے خلاف اپنے مورچہ باندھنے کا آغاز نادی مرگ حلقہ انتخاب سے کیا۔ نادی مرگ سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی روایتی سیٹ یعنی بہابانی پورہ، جو جنوبی کولکتہ میں واقع ہے، چھوڑ دی۔ یہ حلقہ انتخاب نیتاجی سبھاش چندر بوس، ستیہ جیت رائے اور شاما پرساد مکھرجی جیسے لیڈروں کا گڑھ رہی ہے۔ ممتا نے اپنے اس روایتی حلقہ انتخاب کو اپنے بھروسہ مند ساتھی اور ترنمول کے سرکردہ لیڈر شووان دیب چھاٹوپادھیا کے سہارے چھوڑ دی۔

بی جے پی جو ریاست میں بائیں بازو اور کانگریس کے زوال کے بعد کلیدی اپوزیشن کے بطور ابھری، نے حالیہ انتخابات میں اپنا سارا زور ریاستی کے مشرقی حصے کو جیتنے میں لگایا۔ حالانکہ یہاں پر بی جے پی کا کبھی بھی کوئی اثرو رسوخ نہیں رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندرا مودی سے لیکر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور پارٹی کے قومی صدر جےپی ندا تک بھاجپا کے سبھی بڑے لیڈروں نے انتخابی مہم کے دوران ریاست کا چکر لگایا اور انتخابی مہم میں حصہ لیا تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کی جاسکیں۔

بنگال کے انتخابات میں پولرائزیشن اور علاقائی کاسٹ سسٹم نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں کے متوا سماج کو لبھانے کےلئے وزیر اعظم مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران اس سماج کے خاص مذہبی مقام پر حاضری دی۔ اسی طرح امیت شاہ بھی بار بار مغربی بنگال میں راج بونگشی قبیلے، جس کا 35 سے زیادہ حلقہ ہائے انتخابات میں اثر و رسوخ ہے، کو لبھانے کی بھر پور کوشش کی۔ غرض بی جے پی نے مغربی بنگال میں انتخابی جنگ بھر پور طریقے سے لڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ دی۔

بنگال میں اس بار انتخابی مہم کو جو انداز دیکھنے کو ملا وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا ہے۔ امت شاہ سے لیکر ندا اور بھاجپا کے ریاستی صدر دلیپ گوش تک سب نے انتخابی مہم کے دوران پسماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کے گھروں میں جاکر کھان پان کیا۔ اس مہم کے دوران متحاربین نے ایک دوسرے پر تیر ونشتر برسادیئے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل دیا۔ اس مہم کے دوران رائے دہندگان کو لبھانے کےلئے ناچ نغموں کی پارٹیوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔

ممتا بینرجی کو معلوم تھا کہ یہ ان کے لئے ایک مشکل وقت ہے۔ اسی طرح بی جے پی بھی یہ جانتی تھی کہ اس کے لئے ممتا جیسی متاثر کن شخصیت کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کےلئے اپنے اُمید وار کو سامنے لانا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسری جانب بائیں بازو، کانگریس اور ان کی حمایتی جماعتوں کو بھی یہ پتہ تھا کہ اُن کے جیتنے کے بہت کم امکانات ہیں۔ تاہم ان پارٹیوں نے بھی ایک نیا ولولہ پیدا کرنے کےلئے پرانے چہروں کے بجائے نئے کم عمر اور قابل اُمیدواروں کو سامنے لا کھڑا کردیا۔ تاہم ای ٹی وی بھارت کی جانب سے انتخابی نتائج سے متعلق سامنے لائے گئے تخمینے کے مطابق کوئی بھی پارٹی 148 سیٹیں، یعنی حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

تخمینے کے مطابق ترنمول کانگریس کو 131 سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ بی جے پی کو 126 نشستیں مل سکتی ہیں۔ بائیں بازو اور اتحادی جماعتوں کو 32 سیٹیں ملنے کی اُمید ہے جبکہ باقی ماندہ تین سیٹیں دیگر جماعتوں کے کھاتے میں جاسکتی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا منقسم مینڈیٹ کی صورت میں بنگال میں ہارس ٹریڈنگ یعنی منتخب اراکین اسمبلی کو خریدنے بیچنے کا آپشن کھل جائے گا؟ یا پھر سروے غلط ثابت ہوجائے گا اور کسی ایک پارٹی کو حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل ہوگی۔ فی الوقت ان سوالات کا جواب بند پڑی ای وی اہم مشینوں میں محفوظ ہے۔ جوابات جاننے کےلئے 2 مئی کا انتظار کرنا ہوگا۔

آسام

سرسبز میدانوں اور پہاڑوں کی حامل ریاست آسام میں تین مرحلوں پر مشتمل انتخابات منعقد ہوئے اور یہاں بنیادی طور پر مقابلہ بی جے پی اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)، جس میں کانگریس سمیت سات دیگر پارٹیاں شامل ہے، کے درمیان رہا۔ اس شمال مشرقی ریاست میں انتخابی نتائج سے متعلق ای ٹی وی بھارت کی جانب سے لگائے گئے تخمینہ دلچسپ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔

تخمینے کے مطابق بی جے پی کے قیادت والے اتحاد کو 126 نشستوں پر مشتمل اسمبلی میں 64 سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ جبکہ کانگریس قیادت والے گرینڈ الائنس کو 55 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ جبکہ نئی پارٹی اسوم جنتا پریشد (اے جے پی)، محبوس کسانوں اور حقوق انسانی کارکن اکھل گگوئی کی قیادت والی رائےجور دل اور آزاد امیدواروں کو باقی ماندہ سات سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔

یہاں ووٹروں کی رائے دو معاملات کے حوالے سے بٹ گئی۔ بی جےپی نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی یعنی ڈیولپمنٹ کے نام پر ووٹ مانگے اور کانگریس نے شہریت (ترمیمی ) ایکٹ سے جڑے جذبات کو ابھارتے ہوئے رائے دہندگان کو لبھانے کی کوشش کی۔ کانگریس کو یہ اُمید بھی ہے کہ بدرالدین اجمل کی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) سے جڑنے کی وجہ سے اسے اقلیت کے کچھ ووٹ بھی حاصل ہونگے۔ اس کے علاوہ کانگریس کو بدو لینڈ پیپلز فرنٹ (بی پی ایف) کے ساتھ اتحاد کرنے کا بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے اسے 12 انتخابی حلقوں میں فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ آسام میں حکومت کی لگام ایک بار پھر بی جے پی کے ہاتھوں میں آسکتی ہے تاہم یہ آسان بھی نہیں ہے۔

مشرق سے جنوب کی جانب

جہاں تک تامل ناڈو کا تعلق ہے، یہاں لگاتا ہے کی ای پی ایس کےلئے دروازے بند ہوگئے ہیں اور ڈی ایم کے ریاست میں نئی حکومت قائم کرلے گی۔ ای ٹی وی بھارت کے تخمینے کے مطابق ڈی ایم کے فرنٹ کو 133 سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ جبکہ اے آئی اے ڈی ایم کے فرنٹ کی جھولی میں صرف 89 سیٹیں آئیں گی۔ باقی ماندہ 12 سیٹیں باقی جماعتوں کے کھاتے میں چلی جائیں گیں۔ ریاست کی 234 نشستوں کے لئے انتخابات کا انعقاد 6 اپریل کو ہوئے۔

دراویڈا منیترا کاجگام (ڈی ایم کے)، جس نے سال 2016ء میں الیکشن ہارا تھا، ریاست میں نئی سرکار بنا سکتی ہے اور پارٹی کے صدر ایم کے سٹالن وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہوسکتے ہیں۔

ای کے پلنی سوامی (ای پی ایس)، جنہوں اب تک اے آئی اے ڈی ایم کے کو یک جٹ رکھا اور جنہیں مرکز میں بی جے پی کی حمایت حاصل رہی ہے، کے ہاتھوں سے دس سال بعد اقتدار کی لگام کسکھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس امر کے باوجود کہ حکمران جماعت جس کا مغربی تامل ناڈو گڑھ ہے، 90 سیٹیوں کو حاصل کرنے کی اُمید کررہی تھی، یہ ہارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تخمینے کے مطابق ڈی ایم کے نے کامیابی کا سفر طے کر لیا ہے۔

تخمینے کے مطابق ڈی ایم کے محاذ، جس میں کانگریس ،بائیں بازو، ودوتھالیا چروتھائیگال کاٹچی، مسلم جماعتیں اور دیگر کئی پارٹیاں شامل ہیں، کو بھاری اکثریت حاصل ہوگی۔ زمینی سطح پر ڈی ایم کے اپنے حریف اے آئی اے ڈی ایم کے کے مقابلے میں مضبوط نظر آرہی ہے۔ چونکہ تامل ناڈو ایم کارونندی یا جئے للیتا جیسی معروف شخصیات کی عدم موجودگی میں ایک طویل عرصے کے بعد انتخابات ہورہے ہیں، اس لئے یہاں ایم کے سٹالن ہی ایک معروف لیڈر کے بطور اُبھر تے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ممکنہ طور پر کامیابی پانے والے دیگر سرکردہ لوگوں میں ادھیا نندی سٹالن، جو ٹرپلکین حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے ڈی ایم کے کے نوجوان لیڈر ہیں، کٹاپڈی سے تعلق رکھنےو الے پارٹی کے سرکردہ لیڈر دورائے مروگن اور تریو چراپالی کے سرکرہ لیڈر کے این نہر شامل ہیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ کانگریس کنیا کماری کی لوک سبھا سیٹ جیت لے گی، جس کے ضمنی انتخابات اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی ہوئے، جیت لے گی۔ تخمینے کے مطابق سیوا گنگا ضلع میں پارٹی کی جڑیں مضبوط ہیں۔ یہ سابق مرکزی وزیر خزانہ پی چدامبرم کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں اور تھول تھریوماوالون کے وی سی کے، جو ڈی ایم کے محاذ میں شامل ہیں، کو بھی نئی اسمبلی میں نمائندگی ملنے کا امکان ہے۔

اگر سٹالن کو واقعی فتح نصیب ہوئی تو اُن کےلئے انتخابی وعدوں کو پورا کرنا ایک چیلنج ثابت ہوگا۔ ان وعدوں میں تعلیمی قرضوں کو معاف کرنا اور خواتین، بشمول بیواوں کو کو ماہانہ پندرہ سو روپیہ دینے جیسے وعدے بھی شامل ہیں۔

کیرلا

پڑوسی کیرلا، جہاں 140 سیٹوں پر مشتمل اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں، میں ای ٹی وی بھارت کے تخمینے کےلئے سی پی آئی ایم کی قیادت والے ڈیموکریٹک فرنٹ کو دوسری بار بھی کامیابی حاصل ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ریاست میں حکمران جماعت کو کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ایل ڈی ایف نے سال 2016ء میں کو سیٹیں حاصل کی تھیں، اُن میں سے وہ 11 سیٹیں ہار سکتی ہے اور اس طرح سے وہ 93 سیٹیوں سے گر کر 82 پر آجائے گی۔ تاہم یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ کمونسٹ پارٹی دوبارہ بر سراقتدار آئے گی۔

تخمینے کے مطابق پناریائی وجیان کی قیادت والی ایل ڈی ایف کو لوگوں نے اس وجہ سے ووٹ دیا کیونکہ اس نے سماجی فلاح کے اقدمات اور ترقیاتی کام کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب اور کووڈ کے بحران کے دوران ایک مضبوط کردار ادا کیا۔ انتخابی مہم کی شروعات میں ایل ڈی ایف کی ساکھ کو کچھ حد تک جو نقصان ہوا ہے، اس کی وجہ کانگریس کی جانب سے اس پر لگائے گئے اقربا نوازی اور کرپشن کے الزامات ہیں۔ تاہم اچھی حکمرانی کی بدولت وجیان اور ان کے ساتھیوں کو اپنے پیر جمائے رکھنے میں مدد دی۔

یو ڈی ایف کو اس بار 56 سیٹیں ملیں گی۔ اسے سال 2016ء میں 45 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اگر چہ مرکزی کیرلا اور آئی یو ایم ایل کے گڑھ نے یو ڈی ایف کے ووٹوں کی حفاظت کی ہے، تاہم کیرلا کانگریس (ایم) کی جانب سے یو ڈی ایف سے اخراج کی وجہ سے اسے بڑی حد تک ضرور دھچکہ لگا ہے۔ کیرلا کانگریس (ایم) اب ایل ڈی ایف میں شامل ہے۔

یہاں تک کہ راہل گاندھی فیکٹر بھی ایل ڈی ایف کو متاثر نہیں کرپایا ہے۔ تخمینے کے مطابق سال 2019ء میں جو سات نشستیں کانگریس کو ملی تھیں، میں سے چار سیٹیں ایل ڈی ایف کو حاصل ہوں گی۔

تریوندرم پارلیمانی حلقمہ انتخاب، جہاں سال 2019ء میں ششی تھرور نے فتح حاصل کی تھی، میں صورتحال نہیں بدلی ہے۔ تریوندرم لوک سبھا حلقہ انتخاب کو سات اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے، میں ایل ڈی ایف کو چار سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔

بی جے پی قیادت والے ڈی این اے الائنس کو اسی واحد سیٹ پر اکتفا کرنا پڑے گا، جو اس نے سال 2016ء میں حاصل کی تھی۔ ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف نے اسے نیموم میں سخت مقابلے سے دوچار کردیا ہے۔ یہ سیٹ پچھلے انتخابات میں او راجاگوپال نے جیت لی تھی۔ اس بات کا امکان ہے کہ میٹرومن ای سری دھارن پالکڈ سے جیت جائیں گے۔

فی الوقت سب یقینی طور پر 2 مئی کا انتظار کررہے ہونگے، جب تنائج کا اعلان ہوگا۔

(ای ٹی وی بھارت ٹیم)

مغربی بنگال

جتنی توجہ 294 نشستوں پر مشتمل مغربی بنگال کی اسمبلی کے حالیہ انتخابات کو ملی، بھارت کے کسی بھی ریاستی انتخابات کو کبھی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے آٹھ مراحل میں مغربی بنگال کے انتخابات کرانے سے لیکر بعد میں رونما ہونے والے کئی واقعات اپنی نوعیت کے قابل توجہ واقعات رہے۔ ان میں زعفرانی قوت ( بھاجپا) کی جانب سے ممتا بینرجی کی قیادت والی حکمران ترنمول کانگریس سے اقتدار چھیننے کی جستجو، بائیں بازو اور کانگریس کی جانب سے آل انڈیا سیکولر فرنٹ (اے آئی ایس ایف)، جسے مسلم مذہبی لیڈر پیرزادہ عباس صدیقی قائم کیا ہے، کے ساتھ اتحاد جیسے واقعات شامل ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے مغربی بنگال کے انتخابات اپنی نوعیت کے منفرد انتخابات تھے۔ اسمبلی کی 292 سیٹوں پر ہی الیکشن ہوئے کیونکہ دو حلقہ ہائے انتخابات سے وابستہ دو اُمیدوار کووِڈ کی وجہ سے فوت ہوئے۔

ممتا، جن پر ریاستی کے جنوبی حصوں میں اقربا پروری اور پاسداری سے جڑے الزامات کا سامنا ہے، نے بہادری کے ساتھ اور لنگر لنگوٹ کس کر اپنے نئے حریف یعنی بی جے پی کے خلاف اپنے مورچہ باندھنے کا آغاز نادی مرگ حلقہ انتخاب سے کیا۔ نادی مرگ سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی روایتی سیٹ یعنی بہابانی پورہ، جو جنوبی کولکتہ میں واقع ہے، چھوڑ دی۔ یہ حلقہ انتخاب نیتاجی سبھاش چندر بوس، ستیہ جیت رائے اور شاما پرساد مکھرجی جیسے لیڈروں کا گڑھ رہی ہے۔ ممتا نے اپنے اس روایتی حلقہ انتخاب کو اپنے بھروسہ مند ساتھی اور ترنمول کے سرکردہ لیڈر شووان دیب چھاٹوپادھیا کے سہارے چھوڑ دی۔

بی جے پی جو ریاست میں بائیں بازو اور کانگریس کے زوال کے بعد کلیدی اپوزیشن کے بطور ابھری، نے حالیہ انتخابات میں اپنا سارا زور ریاستی کے مشرقی حصے کو جیتنے میں لگایا۔ حالانکہ یہاں پر بی جے پی کا کبھی بھی کوئی اثرو رسوخ نہیں رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندرا مودی سے لیکر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور پارٹی کے قومی صدر جےپی ندا تک بھاجپا کے سبھی بڑے لیڈروں نے انتخابی مہم کے دوران ریاست کا چکر لگایا اور انتخابی مہم میں حصہ لیا تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کی جاسکیں۔

بنگال کے انتخابات میں پولرائزیشن اور علاقائی کاسٹ سسٹم نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں کے متوا سماج کو لبھانے کےلئے وزیر اعظم مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران اس سماج کے خاص مذہبی مقام پر حاضری دی۔ اسی طرح امیت شاہ بھی بار بار مغربی بنگال میں راج بونگشی قبیلے، جس کا 35 سے زیادہ حلقہ ہائے انتخابات میں اثر و رسوخ ہے، کو لبھانے کی بھر پور کوشش کی۔ غرض بی جے پی نے مغربی بنگال میں انتخابی جنگ بھر پور طریقے سے لڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ دی۔

بنگال میں اس بار انتخابی مہم کو جو انداز دیکھنے کو ملا وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا ہے۔ امت شاہ سے لیکر ندا اور بھاجپا کے ریاستی صدر دلیپ گوش تک سب نے انتخابی مہم کے دوران پسماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کے گھروں میں جاکر کھان پان کیا۔ اس مہم کے دوران متحاربین نے ایک دوسرے پر تیر ونشتر برسادیئے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل دیا۔ اس مہم کے دوران رائے دہندگان کو لبھانے کےلئے ناچ نغموں کی پارٹیوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔

ممتا بینرجی کو معلوم تھا کہ یہ ان کے لئے ایک مشکل وقت ہے۔ اسی طرح بی جے پی بھی یہ جانتی تھی کہ اس کے لئے ممتا جیسی متاثر کن شخصیت کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کےلئے اپنے اُمید وار کو سامنے لانا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسری جانب بائیں بازو، کانگریس اور ان کی حمایتی جماعتوں کو بھی یہ پتہ تھا کہ اُن کے جیتنے کے بہت کم امکانات ہیں۔ تاہم ان پارٹیوں نے بھی ایک نیا ولولہ پیدا کرنے کےلئے پرانے چہروں کے بجائے نئے کم عمر اور قابل اُمیدواروں کو سامنے لا کھڑا کردیا۔ تاہم ای ٹی وی بھارت کی جانب سے انتخابی نتائج سے متعلق سامنے لائے گئے تخمینے کے مطابق کوئی بھی پارٹی 148 سیٹیں، یعنی حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

تخمینے کے مطابق ترنمول کانگریس کو 131 سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ بی جے پی کو 126 نشستیں مل سکتی ہیں۔ بائیں بازو اور اتحادی جماعتوں کو 32 سیٹیں ملنے کی اُمید ہے جبکہ باقی ماندہ تین سیٹیں دیگر جماعتوں کے کھاتے میں جاسکتی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا منقسم مینڈیٹ کی صورت میں بنگال میں ہارس ٹریڈنگ یعنی منتخب اراکین اسمبلی کو خریدنے بیچنے کا آپشن کھل جائے گا؟ یا پھر سروے غلط ثابت ہوجائے گا اور کسی ایک پارٹی کو حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل ہوگی۔ فی الوقت ان سوالات کا جواب بند پڑی ای وی اہم مشینوں میں محفوظ ہے۔ جوابات جاننے کےلئے 2 مئی کا انتظار کرنا ہوگا۔

آسام

سرسبز میدانوں اور پہاڑوں کی حامل ریاست آسام میں تین مرحلوں پر مشتمل انتخابات منعقد ہوئے اور یہاں بنیادی طور پر مقابلہ بی جے پی اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)، جس میں کانگریس سمیت سات دیگر پارٹیاں شامل ہے، کے درمیان رہا۔ اس شمال مشرقی ریاست میں انتخابی نتائج سے متعلق ای ٹی وی بھارت کی جانب سے لگائے گئے تخمینہ دلچسپ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔

تخمینے کے مطابق بی جے پی کے قیادت والے اتحاد کو 126 نشستوں پر مشتمل اسمبلی میں 64 سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ جبکہ کانگریس قیادت والے گرینڈ الائنس کو 55 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ جبکہ نئی پارٹی اسوم جنتا پریشد (اے جے پی)، محبوس کسانوں اور حقوق انسانی کارکن اکھل گگوئی کی قیادت والی رائےجور دل اور آزاد امیدواروں کو باقی ماندہ سات سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔

یہاں ووٹروں کی رائے دو معاملات کے حوالے سے بٹ گئی۔ بی جےپی نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی یعنی ڈیولپمنٹ کے نام پر ووٹ مانگے اور کانگریس نے شہریت (ترمیمی ) ایکٹ سے جڑے جذبات کو ابھارتے ہوئے رائے دہندگان کو لبھانے کی کوشش کی۔ کانگریس کو یہ اُمید بھی ہے کہ بدرالدین اجمل کی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) سے جڑنے کی وجہ سے اسے اقلیت کے کچھ ووٹ بھی حاصل ہونگے۔ اس کے علاوہ کانگریس کو بدو لینڈ پیپلز فرنٹ (بی پی ایف) کے ساتھ اتحاد کرنے کا بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے اسے 12 انتخابی حلقوں میں فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ آسام میں حکومت کی لگام ایک بار پھر بی جے پی کے ہاتھوں میں آسکتی ہے تاہم یہ آسان بھی نہیں ہے۔

مشرق سے جنوب کی جانب

جہاں تک تامل ناڈو کا تعلق ہے، یہاں لگاتا ہے کی ای پی ایس کےلئے دروازے بند ہوگئے ہیں اور ڈی ایم کے ریاست میں نئی حکومت قائم کرلے گی۔ ای ٹی وی بھارت کے تخمینے کے مطابق ڈی ایم کے فرنٹ کو 133 سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ جبکہ اے آئی اے ڈی ایم کے فرنٹ کی جھولی میں صرف 89 سیٹیں آئیں گی۔ باقی ماندہ 12 سیٹیں باقی جماعتوں کے کھاتے میں چلی جائیں گیں۔ ریاست کی 234 نشستوں کے لئے انتخابات کا انعقاد 6 اپریل کو ہوئے۔

دراویڈا منیترا کاجگام (ڈی ایم کے)، جس نے سال 2016ء میں الیکشن ہارا تھا، ریاست میں نئی سرکار بنا سکتی ہے اور پارٹی کے صدر ایم کے سٹالن وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہوسکتے ہیں۔

ای کے پلنی سوامی (ای پی ایس)، جنہوں اب تک اے آئی اے ڈی ایم کے کو یک جٹ رکھا اور جنہیں مرکز میں بی جے پی کی حمایت حاصل رہی ہے، کے ہاتھوں سے دس سال بعد اقتدار کی لگام کسکھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس امر کے باوجود کہ حکمران جماعت جس کا مغربی تامل ناڈو گڑھ ہے، 90 سیٹیوں کو حاصل کرنے کی اُمید کررہی تھی، یہ ہارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تخمینے کے مطابق ڈی ایم کے نے کامیابی کا سفر طے کر لیا ہے۔

تخمینے کے مطابق ڈی ایم کے محاذ، جس میں کانگریس ،بائیں بازو، ودوتھالیا چروتھائیگال کاٹچی، مسلم جماعتیں اور دیگر کئی پارٹیاں شامل ہیں، کو بھاری اکثریت حاصل ہوگی۔ زمینی سطح پر ڈی ایم کے اپنے حریف اے آئی اے ڈی ایم کے کے مقابلے میں مضبوط نظر آرہی ہے۔ چونکہ تامل ناڈو ایم کارونندی یا جئے للیتا جیسی معروف شخصیات کی عدم موجودگی میں ایک طویل عرصے کے بعد انتخابات ہورہے ہیں، اس لئے یہاں ایم کے سٹالن ہی ایک معروف لیڈر کے بطور اُبھر تے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ممکنہ طور پر کامیابی پانے والے دیگر سرکردہ لوگوں میں ادھیا نندی سٹالن، جو ٹرپلکین حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے ڈی ایم کے کے نوجوان لیڈر ہیں، کٹاپڈی سے تعلق رکھنےو الے پارٹی کے سرکردہ لیڈر دورائے مروگن اور تریو چراپالی کے سرکرہ لیڈر کے این نہر شامل ہیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ کانگریس کنیا کماری کی لوک سبھا سیٹ جیت لے گی، جس کے ضمنی انتخابات اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی ہوئے، جیت لے گی۔ تخمینے کے مطابق سیوا گنگا ضلع میں پارٹی کی جڑیں مضبوط ہیں۔ یہ سابق مرکزی وزیر خزانہ پی چدامبرم کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں اور تھول تھریوماوالون کے وی سی کے، جو ڈی ایم کے محاذ میں شامل ہیں، کو بھی نئی اسمبلی میں نمائندگی ملنے کا امکان ہے۔

اگر سٹالن کو واقعی فتح نصیب ہوئی تو اُن کےلئے انتخابی وعدوں کو پورا کرنا ایک چیلنج ثابت ہوگا۔ ان وعدوں میں تعلیمی قرضوں کو معاف کرنا اور خواتین، بشمول بیواوں کو کو ماہانہ پندرہ سو روپیہ دینے جیسے وعدے بھی شامل ہیں۔

کیرلا

پڑوسی کیرلا، جہاں 140 سیٹوں پر مشتمل اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں، میں ای ٹی وی بھارت کے تخمینے کےلئے سی پی آئی ایم کی قیادت والے ڈیموکریٹک فرنٹ کو دوسری بار بھی کامیابی حاصل ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ریاست میں حکمران جماعت کو کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ایل ڈی ایف نے سال 2016ء میں کو سیٹیں حاصل کی تھیں، اُن میں سے وہ 11 سیٹیں ہار سکتی ہے اور اس طرح سے وہ 93 سیٹیوں سے گر کر 82 پر آجائے گی۔ تاہم یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ کمونسٹ پارٹی دوبارہ بر سراقتدار آئے گی۔

تخمینے کے مطابق پناریائی وجیان کی قیادت والی ایل ڈی ایف کو لوگوں نے اس وجہ سے ووٹ دیا کیونکہ اس نے سماجی فلاح کے اقدمات اور ترقیاتی کام کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب اور کووڈ کے بحران کے دوران ایک مضبوط کردار ادا کیا۔ انتخابی مہم کی شروعات میں ایل ڈی ایف کی ساکھ کو کچھ حد تک جو نقصان ہوا ہے، اس کی وجہ کانگریس کی جانب سے اس پر لگائے گئے اقربا نوازی اور کرپشن کے الزامات ہیں۔ تاہم اچھی حکمرانی کی بدولت وجیان اور ان کے ساتھیوں کو اپنے پیر جمائے رکھنے میں مدد دی۔

یو ڈی ایف کو اس بار 56 سیٹیں ملیں گی۔ اسے سال 2016ء میں 45 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اگر چہ مرکزی کیرلا اور آئی یو ایم ایل کے گڑھ نے یو ڈی ایف کے ووٹوں کی حفاظت کی ہے، تاہم کیرلا کانگریس (ایم) کی جانب سے یو ڈی ایف سے اخراج کی وجہ سے اسے بڑی حد تک ضرور دھچکہ لگا ہے۔ کیرلا کانگریس (ایم) اب ایل ڈی ایف میں شامل ہے۔

یہاں تک کہ راہل گاندھی فیکٹر بھی ایل ڈی ایف کو متاثر نہیں کرپایا ہے۔ تخمینے کے مطابق سال 2019ء میں جو سات نشستیں کانگریس کو ملی تھیں، میں سے چار سیٹیں ایل ڈی ایف کو حاصل ہوں گی۔

تریوندرم پارلیمانی حلقمہ انتخاب، جہاں سال 2019ء میں ششی تھرور نے فتح حاصل کی تھی، میں صورتحال نہیں بدلی ہے۔ تریوندرم لوک سبھا حلقہ انتخاب کو سات اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے، میں ایل ڈی ایف کو چار سیٹیں حاصل ہوسکتی ہیں۔

بی جے پی قیادت والے ڈی این اے الائنس کو اسی واحد سیٹ پر اکتفا کرنا پڑے گا، جو اس نے سال 2016ء میں حاصل کی تھی۔ ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف نے اسے نیموم میں سخت مقابلے سے دوچار کردیا ہے۔ یہ سیٹ پچھلے انتخابات میں او راجاگوپال نے جیت لی تھی۔ اس بات کا امکان ہے کہ میٹرومن ای سری دھارن پالکڈ سے جیت جائیں گے۔

فی الوقت سب یقینی طور پر 2 مئی کا انتظار کررہے ہونگے، جب تنائج کا اعلان ہوگا۔

(ای ٹی وی بھارت ٹیم)

Last Updated : Apr 30, 2021, 10:57 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.