ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں، سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانے کا بھی سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ گذشتہ دنوں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک عوامی اجتماع کے دوران لفظ 'ابا جان' کا استعمال کیا تھا، جس کے بعد سے سیاسی پارٹیاں نے اس لفظ 'ابا جان' کو مختلف طور پر پیش کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ انہوں نے اس لفط کا استعمال اترپردیش کی سابقہ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کیا ہے'۔
اسی ضمن میں مرادآباد سے سماج وادی پارٹی کے رہنما ایس ٹی حسن نے کہا کہ 'ابّا جان ایک بہت ہی پاک و پاکیزہ لفظ ہے، ابّا کا رشتے کیا ہوتا ہے یہ کچھ لوگوں کو جاننا اور سمجھنا چاہیے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'جو ابّا جان کہہ رہے ہیں، وہ ایک تیر سے دو نشانے لگا رہے ہیں، ایک طرف ملک کے بہت بڑے نیتا ملائم سنگھ پر نشانہ لگا رہے ہیں، دوسری طرف دیش کے مسلمانوں پر بھی نشانہ لگا رہے ہیں، اس لفظ میں کوئی برائی نہیں ہے، اس لفظ کو میں بہت بڑا لفظ سمجھتا ہوں، چاہے ابّا جان ہوں، چاہے پتا جی ہوں، یا ڈیڈی ہوں ان رشتوں کا احترام ہونا چاہیے، نہ کہ اس لفظ کا مذاق اڑانا چاہئے۔
مزید پڑھیں: یوگی کے 'ابا جان' تبصرے کو لیکر سماجی کارکن نے عدالت کا رخ کیا
آپ کو بتاتا چلوں کہ اتوار کو وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ نے اترپردیش کے کشی نگر اور سنت کبیر نگر ضلعوں میں عوامی جلسوں سے سماجوادی پارٹی کے سپریمو کا نام لیے بغیر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ابا جان کہنے والے غریبوں پر ڈاکا ڈالتے تھے، پورا کنبہ جھولا لے کر وصولی کے لئے نکل پڑتا تھا۔ ابا جان کہنے والے راشن ہضم کر جاتے تھے، راشن نیپال اور بنگلہ دیش پہنچ جاتا تھا اور آج جو غریبوں کا راشن نگلے گا، تو وہ راشن تو نہیں نگل پائے گا لیکن جیل ضرور چلا جائے گا'۔ ساتھ اس متنازعہ بیان 'ابا جان' کے خلاف بہار کے ایک سماجی کارکن نے عدالت کا رخ کیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یوگی نے اقلیتی طبقہ کے جزبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ معاملہ کی سماعت 21 ستمبر کو ہوگی۔