دہلی کی تیس ہزارہ عدالت نے 26 جنوری کو لال قلعہ پر قومی پرچم کی توہین کے الزام میں گرفتار دیپ سدھو کی پولیس تحویل میں 7 دن کی توسیع کر دی ہے۔ آج دیپ سدھو کی پولیس تحویل ختم ہورہی تھی، جس کے بعد پولیس نے اسے عدالت میں پیش کیا۔
آج پولیس تحویل ختم ہونے والی تھی
گزشتہ 9 فروری کو عدالت نے دیپ سدھو کو آج تک کی پولیس تحویل میں بھیج دیا تھا۔ عدالت نے اس معاملے میں شریک ملزم سکھدیو سنگھ کو 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔
گزشتہ 10 فروری کو عدالت نے معاملے میں شریک ملزم اقبال سنگھ کو سات دن کی پولیس تحویل میں بھیجا تھا۔
10 دن کی ریمانڈ کا مطالبہ
سماعت کے دوران آج دہلی پولیس نے عدالت سے دیپ سدھو کی 10 دنوں کی مزید تحویل کا مطالبہ کیا تھا۔ گزشتہ نو فروری کو دہلی پولیس نے کہا تھا کہ دیپ سدھو سے پوچھ گچھ کرنی ہے۔ اس کے خلاف ویڈیو ثبوت موجود ہے۔ پولیس نے کہا تھا کہ سدھو نے لوگون کو بھڑکایا، جس کے باعث لوگوں نے عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔ سدھو کے سوشل میڈیا کو ہینڈل کرنے والوں کی بھی جانچ کرنی ہے، اسے پنجاب اور ہریانہ لیکر جانا ہے، وہ جس گاڑی میں آیا تھا، اسے بھی ضبط کرنا باقی ہے۔ اس کے موبائل فون بھی ریکور کرنے ہیں، ایک موبائل فون پٹیالہ میں پھینک دیا گیا تھا۔
140 پولیس اہلکاروں پر حملہ ہوا
پولیس نے بتایا کہ 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی کے دوران قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ لال قلعے پر پرچم لہرایا گیا۔ دیپ سدھو تشدد میں سب سے آگے تھا۔ لال قلعے پر 140 پولیس اہلکاروں پر حملہ ہوا۔ ان کے سر پر تلواروں سے چوٹیں آئی۔ دہلی پولیس نے کہا تھا کہ ویڈیو میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دیپ سدھو جھنڈوں اور لاٹھیوں کے ساتھ لال قلعے میں داخل ہوا تھا۔ وہ جوگراج سنگھ کے ساتھ تھا۔
واضح ہو کہ دیپ سدھو کو گذشتہ 9 فروری کو ہریانہ کے کرنال سے دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے گرفتار کیا تھا۔