سپریم کورٹ میں اتر پردیش اور اترا کھنڈ تبدیلیٔ مذہب آرڈیننس 2020 کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں، درخواست میں ان آرڈیننسز پر عمل درآمد نہ کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ یہ آرڈیننس بنیادی حقوق چھین کر بنیادی آئینی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہا ہے، اس کا غلط استعمال لو جہاد کے نام پر کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر یہ خصوصی شادی ایکٹ 1954 کے خلاف ہے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ آرڈیننس کی منظوری سے ان افراد یا شہریوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی جنہوں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
درخواست گزاروں نے اس آرڈیننس کو کچھ کے لیے ہتھیار قرار دیتے ہوئے دلیل دی ہے کہ اس قانون کی مدد سے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جا سکتا ہے، اس کے نافذ ہوتے ہی ان لوگوں پر سراسر ظلم ہوگا۔
آرٹیکل 32 کے تحت درخواست دائر کرتے ہوئے درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ اگر آئین کی کسی شق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ اس قانون کو غیر قانونی قرار دے۔
درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ عدالت قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کی ہدایت دے، ساتھ ہی عدالت اسے واپس لینے یا متبادل طور پر اس میں ترمیم کرنے کا حکم جاری کرے۔'
گولکھ بمقابلہ ریاست پنجاب کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست گزاروں نے کہا کہ عدالت نے اس معاملے میں پارلیمنٹ کی خود مختاری کے قانون پر عمل درآمد روک دیا تھا اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو نقصان سے بچایا تھا۔