ETV Bharat / bharat

G7 and Quad Summits پاک، چین سے معمول کے تعلقات کے لئے سرحد پرامن، دہشت گردی سے آزاد ماحول ضروری: وزیراعظم مودی - وزیر اعظم نریندر مودی

وزیر اعظم نریندر مودی جی 7 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے جاپان پہنچے۔ جہاں انہوں نے ایک انٹرویو میں پاکستان اور چین پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتا ہے لیکن دہشت گردی سے پاک ماحول بنانے کے بعد جس کے لیے اسلام آباد ذمہ دار ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : May 19, 2023, 8:46 PM IST

ہیروشیما: وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان اور چین کے ساتھ عام پڑوسیوں کی طرح تعلقات رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے لیے سرحد پر امن و استحکام اور دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول ضروری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے یہ بات جاپان، پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل نئی دہلی میں جاپانی اخبار نکی ایشیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہی۔ آج یہاں شائع ہونے والے اس انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے امرت کال میں روس-یوکرین تنازعہ، روس-بھارت کاروبار، کواڈ اور شنگھائی تعاون تنظیم، چین اور پاکستان، ہندوستان میں انتخابات اور ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے ہدف کے بارے میں بھی بات کی۔وزیر اعظم مودی جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا کی دعوت پر آج رات ہیروشیما کے تاریخی شہر پہنچے جہاں وہ ہفتہ اور اتوار کو جی-7 چوٹی کانفرنس اور کواڈ چوٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جی-7 سربراہی اجلاس میں گلوبل ساؤتھ کے 125 ترقی پذیر ممالک کی ضروریات اور خدشات کی اٹھانے کی کوشش کریں گے اور اس سال ہندوستان کی سربراہی میں جی-20 گروپ کے ساتھ تال میل کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ توانائی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سپلائی چین جیسے شعبوں میں عالمی تبدیلیوں اور چیلنجوں پر بات کرنے کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ''میں ان چیلنجوں سے نمٹنے میں ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر ہندوستان کے کردار پر زور دوں گا۔ میٹنگ میں ہندوستان کا تجربہ مضبوطی سے گونجے گا۔وزیر اعظم مودی نے کہاکہ 'گلوبل ساؤتھ کے ایک رکن کے طور پر کسی بھی کثیرالجہتی ماحول میں متنوع آوازوں کے درمیان ایک پل کے طور پر کام کرنا اور ایک تعمیری اور مثبت ایجنڈے میں تعاون کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔'

واضح رہے کہ ہندوستان نے دسمبر میں انڈونیشیا سے جی-20 کی صدارت سنبھالی تھی۔ اس کے فوراً بعد جنوری میں اس نے وائس آف دی گلوبل ساؤتھ سمٹ کا آن لائن انعقاد کیا، جس میں 125 ممالک کو راغب کیا گیا جس میں زیادہ متوازن نمائندگی کے لیے بین الاقوامی اداروں میں اصلاحات کی بہت سے ممالک کی خواہش پر زور دیا گیا۔انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے اپنے دو قریبی پڑوسیوں چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے خراب تعلقات پر بھی بات کی۔ چین کے ساتھ ہمالیہ کی سرحد پر جاری تعطل کے درمیان انہوں نے کہاکہ "ہندوستان اپنی خودمختاری اور عزت کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار اور پرعزم ہے۔ سرحدی کشیدگی نے پورے بورڈ میں دوطرفہ تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے، خاص طور پر 2020 کے جھڑپ کے بعد سے جس میں 20 ہندوستانی اور بڑی تعداد میں چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے - جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان دہائیوں میں پہلی مہلک لڑائی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے کہاکہ 'چین کے ساتھ معمول کے باہمی تعلقات کے لیے سرحدی علاقوں میں امن و سکون ضروری ہے۔ ہندوستان اور چین کے تعلقات کی مستقبل کی ترقی صرف باہمی احترام، باہمی حساسیت اور باہمی مفادات پر مبنی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اور چین کے تعلقات کو 'معمول' کرنے سے وسیع خطہ اور دنیا کو فائدہ ہوگا۔'

پاکستان کے بارے میں وزیر اعظم مودی نے کہا کہ نئی دہلی معمولی اور ہمسایہ تعلقات چاہتا ہے۔ تاہم ان کے لیے دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے۔ جاپان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جاپان اور ہندوستان کی جمہوریت، آزادی اور قانون کی حکمرانی کی مشترکہ اقدار نے قدرتی طور پر انہیں قریب لایا ہے۔ اب ہم اپنے سیاسی، اسٹریٹیجک، سیکورٹی اور اقتصادی مفادات کے بڑھتے ہوئے ہم آہنگی کو دیکھ رہے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ہندوستان یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ میں ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ یوکرین تنازعہ پر ان کے ملک کا موقف 'واضح اور غیر متزلزل' ہے۔ ہندوستان امن کے ساتھ کھڑا ہے اور مضبوطی سے کھڑا رہے گا۔ ہم ان لوگوں کی مدد کے لیے پرعزم ہیں جنہیں اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر خوراک، ایندھن اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہم نے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہمارے وقت کی تعریف تعاون اور شرکت سے ہونی چاہیے، نہ کہ تنازعات سے۔'

امریکہ کے 'اہم اسٹریٹجک پارٹنر' ہونے اور امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ یا کواڈ کا حصہ ہونے کے باوجود چین اور روس کی قیادت والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا رکن ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر مودی نے کہاکہ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان نے کبھی بھی خود کو سیکورٹی اتحاد کے ساتھ منسلک نہیں کیا۔ اس کے بجائے ہندوستان اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر دنیا بھر کے دوستوں اور ہم خیال شراکت داروں کی ایک وسیع رینج کے ساتھ مشغول ہے۔ انہوں نے کہا کہ کواڈ ممالک کی اجتماعی توجہ 'آزاد، کھلے، خوشحال اور جامع ہند-بحرالکاہل خطے کو فروغ دینے' پر ہے۔ دوسری طرف ایس سی او اہم وسطی ایشیائی خطے کے ساتھ ہندوستان کی مصروفیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہندوستان کا ان دونوں گروپوں میں شرکت کرنا متضاد نہیں ہے۔

سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لیے ہندوستان کی بولی اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کے معاملے پر وزیر اعظم مودی نے عالمی گورننس اداروں کی 'حدودوں' کی بات کی، جو 'فرسودہ ذہنیت تک محدود' ہیں۔ انہوں نے کہاکہ "یہ خامیاں دور حاضر کے چیلنجوں جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، کووڈ-19 کی وبا، دہشت گردی اور مالیاتی بحران سے نمٹنے میں سامنے آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ اور اس کے فیصلہ سازی کے عمل پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہیں گے کیونکہ اس عالمی ادارے نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ ساتھ افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے پورے براعظموں کو مستقل بنیادوں پر نمائندگی دینے سے انکار کیا ہے۔

وزیر اعظم مودی سے جب ان کی گھریلو ترجیحات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 'ہماری ترقی واضح ہے، کیونکہ ہم 2014 میں دسویں سب سے بڑی معیشت سے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت پر پہنچ گئے ہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ عالمی سر گرمیوں کی وجہ سے ترقی کو چیلنج درپیش ہیں، ہم نے حالیہ برسوں میں ایک مضبوط بنیاد بنائی ہے، جو ہمیں ایک سازگار پوزیشن میں رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کا مقصد آزادی کے 100 سال مکمل ہونے پر اگلے 25 سالوں میں ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: G7 Summit وزیراعظم مودی جی 7 کانفرنس کی دعوت پر جاپان پہنچے

یو این آئی

ہیروشیما: وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان اور چین کے ساتھ عام پڑوسیوں کی طرح تعلقات رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے لیے سرحد پر امن و استحکام اور دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول ضروری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے یہ بات جاپان، پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل نئی دہلی میں جاپانی اخبار نکی ایشیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہی۔ آج یہاں شائع ہونے والے اس انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے امرت کال میں روس-یوکرین تنازعہ، روس-بھارت کاروبار، کواڈ اور شنگھائی تعاون تنظیم، چین اور پاکستان، ہندوستان میں انتخابات اور ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے ہدف کے بارے میں بھی بات کی۔وزیر اعظم مودی جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا کی دعوت پر آج رات ہیروشیما کے تاریخی شہر پہنچے جہاں وہ ہفتہ اور اتوار کو جی-7 چوٹی کانفرنس اور کواڈ چوٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جی-7 سربراہی اجلاس میں گلوبل ساؤتھ کے 125 ترقی پذیر ممالک کی ضروریات اور خدشات کی اٹھانے کی کوشش کریں گے اور اس سال ہندوستان کی سربراہی میں جی-20 گروپ کے ساتھ تال میل کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ توانائی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سپلائی چین جیسے شعبوں میں عالمی تبدیلیوں اور چیلنجوں پر بات کرنے کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ''میں ان چیلنجوں سے نمٹنے میں ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر ہندوستان کے کردار پر زور دوں گا۔ میٹنگ میں ہندوستان کا تجربہ مضبوطی سے گونجے گا۔وزیر اعظم مودی نے کہاکہ 'گلوبل ساؤتھ کے ایک رکن کے طور پر کسی بھی کثیرالجہتی ماحول میں متنوع آوازوں کے درمیان ایک پل کے طور پر کام کرنا اور ایک تعمیری اور مثبت ایجنڈے میں تعاون کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔'

واضح رہے کہ ہندوستان نے دسمبر میں انڈونیشیا سے جی-20 کی صدارت سنبھالی تھی۔ اس کے فوراً بعد جنوری میں اس نے وائس آف دی گلوبل ساؤتھ سمٹ کا آن لائن انعقاد کیا، جس میں 125 ممالک کو راغب کیا گیا جس میں زیادہ متوازن نمائندگی کے لیے بین الاقوامی اداروں میں اصلاحات کی بہت سے ممالک کی خواہش پر زور دیا گیا۔انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے اپنے دو قریبی پڑوسیوں چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے خراب تعلقات پر بھی بات کی۔ چین کے ساتھ ہمالیہ کی سرحد پر جاری تعطل کے درمیان انہوں نے کہاکہ "ہندوستان اپنی خودمختاری اور عزت کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار اور پرعزم ہے۔ سرحدی کشیدگی نے پورے بورڈ میں دوطرفہ تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے، خاص طور پر 2020 کے جھڑپ کے بعد سے جس میں 20 ہندوستانی اور بڑی تعداد میں چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے - جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان دہائیوں میں پہلی مہلک لڑائی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے کہاکہ 'چین کے ساتھ معمول کے باہمی تعلقات کے لیے سرحدی علاقوں میں امن و سکون ضروری ہے۔ ہندوستان اور چین کے تعلقات کی مستقبل کی ترقی صرف باہمی احترام، باہمی حساسیت اور باہمی مفادات پر مبنی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اور چین کے تعلقات کو 'معمول' کرنے سے وسیع خطہ اور دنیا کو فائدہ ہوگا۔'

پاکستان کے بارے میں وزیر اعظم مودی نے کہا کہ نئی دہلی معمولی اور ہمسایہ تعلقات چاہتا ہے۔ تاہم ان کے لیے دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے۔ جاپان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جاپان اور ہندوستان کی جمہوریت، آزادی اور قانون کی حکمرانی کی مشترکہ اقدار نے قدرتی طور پر انہیں قریب لایا ہے۔ اب ہم اپنے سیاسی، اسٹریٹیجک، سیکورٹی اور اقتصادی مفادات کے بڑھتے ہوئے ہم آہنگی کو دیکھ رہے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ہندوستان یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ میں ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ یوکرین تنازعہ پر ان کے ملک کا موقف 'واضح اور غیر متزلزل' ہے۔ ہندوستان امن کے ساتھ کھڑا ہے اور مضبوطی سے کھڑا رہے گا۔ ہم ان لوگوں کی مدد کے لیے پرعزم ہیں جنہیں اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر خوراک، ایندھن اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہم نے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہمارے وقت کی تعریف تعاون اور شرکت سے ہونی چاہیے، نہ کہ تنازعات سے۔'

امریکہ کے 'اہم اسٹریٹجک پارٹنر' ہونے اور امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ یا کواڈ کا حصہ ہونے کے باوجود چین اور روس کی قیادت والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا رکن ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر مودی نے کہاکہ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان نے کبھی بھی خود کو سیکورٹی اتحاد کے ساتھ منسلک نہیں کیا۔ اس کے بجائے ہندوستان اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر دنیا بھر کے دوستوں اور ہم خیال شراکت داروں کی ایک وسیع رینج کے ساتھ مشغول ہے۔ انہوں نے کہا کہ کواڈ ممالک کی اجتماعی توجہ 'آزاد، کھلے، خوشحال اور جامع ہند-بحرالکاہل خطے کو فروغ دینے' پر ہے۔ دوسری طرف ایس سی او اہم وسطی ایشیائی خطے کے ساتھ ہندوستان کی مصروفیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہندوستان کا ان دونوں گروپوں میں شرکت کرنا متضاد نہیں ہے۔

سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لیے ہندوستان کی بولی اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کے معاملے پر وزیر اعظم مودی نے عالمی گورننس اداروں کی 'حدودوں' کی بات کی، جو 'فرسودہ ذہنیت تک محدود' ہیں۔ انہوں نے کہاکہ "یہ خامیاں دور حاضر کے چیلنجوں جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، کووڈ-19 کی وبا، دہشت گردی اور مالیاتی بحران سے نمٹنے میں سامنے آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ اور اس کے فیصلہ سازی کے عمل پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہیں گے کیونکہ اس عالمی ادارے نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ ساتھ افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے پورے براعظموں کو مستقل بنیادوں پر نمائندگی دینے سے انکار کیا ہے۔

وزیر اعظم مودی سے جب ان کی گھریلو ترجیحات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 'ہماری ترقی واضح ہے، کیونکہ ہم 2014 میں دسویں سب سے بڑی معیشت سے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت پر پہنچ گئے ہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ عالمی سر گرمیوں کی وجہ سے ترقی کو چیلنج درپیش ہیں، ہم نے حالیہ برسوں میں ایک مضبوط بنیاد بنائی ہے، جو ہمیں ایک سازگار پوزیشن میں رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کا مقصد آزادی کے 100 سال مکمل ہونے پر اگلے 25 سالوں میں ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: G7 Summit وزیراعظم مودی جی 7 کانفرنس کی دعوت پر جاپان پہنچے

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.