وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شریواستو نے باضابطہ بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پاکستان جادھو کے معاملے کو کسی دوسرے قیدی سے جوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریگولر ڈپلومیٹِک پریکٹس کے تحت بھارتیہ ہائی کمیشن نے پاکستان میں سزا کاٹنے کے بعد بھی قید بھارتی شہری محمد اسمٰعیل کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے ایک مقامی وکیل شاہنواز نون سے قرار کیا تھا۔
ترجمان نے بتایا کہ محمد اسمٰعیل کے مقدمے کے دوران ہی پاکستانی اٹارنی جنرل نے مسٹر جادھو کے کیس کو بھی اٹھایا جبکہ دونوں معاملوں کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس پر مسٹر نون نے جو بیان دیا وہ حقائق سے پرے تھا اور بھارت کے موقف کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ ایسا لگا کہ وہ پاکستان حکومت کے دباؤ میں غیر مجاز بیان دے رہے ہیں۔
مسٹر شریواستو نے کہا کہ مسٹر نون نے بھارتیہ ہائی کمیشن کے موقف کو غلط ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ اس کے بعد بھارتیہ ہائی کمیشن کی جانب سے واضح طور پر بتایا گیا کہ مسٹر نون کو حکومت ہند اور کلبھوشن جادھو کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی ٹریبونل کے حکم کے مطابق مسٹر جادھو کو بلا روک ٹوک سفارتی رسائی دینے اور مقدمے سے متعلق تمام دستاویز مہیا کراونے میں مکمل ناکام رہا ہے۔