ETV Bharat / bharat

Violence in Jamia Campus جامعہ کیمپس میں پولیس کے تشدد پر رپورٹ ریکارڈ میں لانے حکم

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 2019 میں ہوئے تشدد پر دہلی ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کو انکوائری رپورٹ کو ریکارڈ پر رکھنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی قومی انسانی حقوق کمیشن کی انکوائری رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔

author img

By

Published : Mar 13, 2023, 10:31 PM IST

Updated : Mar 14, 2023, 7:15 AM IST

جامعہ کیمپس میں پولیس کے تشدد پر رپورٹ ریکارڈ میں لانے حکم
جامعہ کیمپس میں پولیس کے تشدد پر رپورٹ ریکارڈ میں لانے حکم

دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے آج دہلی پولیس کو ہدایت دی کہ وہ 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ تشدد معاملے میں قومی انسانی حقوق کمیشن کی انکوائری رپورٹ پیش کرے، جس میں پولیس اہلکاروں نے جامعہ کیمپس میں گھس کر مبینہ طور پر طلباء کے ساتھ مار پیٹ کی تھی۔ سینیئر ایڈووکیٹ اندرا جے سنگ نے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولیس کے اہلکار وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر کیمپس میں داخل ہوئے اور طلباء کو بے دردی سے مارا پیٹا، جس سے کئی طلباء بری طرح زخمی ہوئے۔ جے سنگھ نے جسٹس سدھارتھ مردول اور تلونت سنگھ کی بنچ کو بتایا کہ جامعہ کے وائس چانسلر نے کہا ہے کہ پولیس نے یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے کوئی اجازت نہیں لی تھی اور اس لیے یہ خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا پولیس کا داخلہ مکمل طور پر غیر مجاز تھا، انہیں قانون کی کوئی حمایت حاصل نہیں تھی اور یونیورسٹی کے اندر اور باہر بھی طاقت کا استعمال بالکل غیر متناسب تھا۔ اس لیے یہ خلاف ورزی کا معاملہ بنتا ہے۔

سینیئر ایڈوکیٹ ان درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوئے تھے، جو پرامن احتجاج کر رہے طلباء کو مبینہ طور پر پیٹنے کے الزام میں دہلی پولیس کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دراصل دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے خلاف جامعہ میں مظاہرے کیے جا رہے تھے، بہت سے طلباء نے اس وقت پارلیمنٹ تک احتجاجی مارچ کا اہتمام کیا تھا، جس پر دہلی پولیس کے افسران نے مبینہ طور پر بغیر اجازت کے یونیورسٹی کیمپس اور لائبریری میں داخل ہو کر اور طلباء کے ساتھ مار پیٹ کی۔

اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں کئی عرضیاں دائر کی گئیں، جس میں دہلی پولیس کے مبینہ کردار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ان درخواستوں میں عدالت کی نگرانی میں تحقیقات اور دہلی پولیس کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ درخواستیں تقریباً تین سال سے ہائی کورٹ کے سامنے زیر التوا ہیں۔ اکتوبر 2022 میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے درخواستوں پر جلد فیصلہ کرنے کی درخواست کی۔ اس کے بعد معاملات کو چیف جسٹس ستیش چندر شرما کی عدالت سے جسٹس مردول کی سربراہی والی بنچ کو منتقل کر دیا گیا۔

جے سنگ نے کہا کہ عدالت کو پولیس کے ذریعہ طاقت کے غیر متناسب استعمال کے معاملے سے نمٹنا پڑے گا۔ انہوں نے جارج فلائیڈ کیس کا بھی حوالہ دیا جہاں ایک سیاہ فام امریکی شخص کو گرفتاری کے دوران پولیس نے ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے نے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا تھا۔ جسٹس مردول نے کہا کہ "ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہندوستان میں عدالتوں نے طاقت کے بے بیجا استعمال پر کافی فاصلے کیے ہیں۔ اگر آپ ہماری توجہ جارج فلائیڈ کیس کی طرف مبذول کراتے ہیں تو ہم اس پر بھی غور کریں گے۔ لیکن ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ اس معاملے پر نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ اس عدالت اور کئی دیگر عدالتوں کے پاس بھی کافی فقہ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Jamia Millia Islamia ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر منتخب

دریں اثناء ایڈوکیٹ رجت نائر دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت کے سامنے عرضی گزار تیسرے فریق کی طرف سے ہیں جن کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ متاثرہ افراد یا مبینہ متاثرین نہیں ہیں۔ عدالت نے دہلی پولیس کو انکوائری رپورٹ کو ریکارڈ پر رکھنے کا حکم دیا۔ بنچ نے ایک اور معاملے میں درخواست گزاروں کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ مواد کو ریکارڈ پر رکھیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے سے پہلے حکام کے ساتھ شکایت درج کرائی تھی۔ کیس کی دوبارہ سماعت 8 مئی کو ہوگی۔

دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے آج دہلی پولیس کو ہدایت دی کہ وہ 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ تشدد معاملے میں قومی انسانی حقوق کمیشن کی انکوائری رپورٹ پیش کرے، جس میں پولیس اہلکاروں نے جامعہ کیمپس میں گھس کر مبینہ طور پر طلباء کے ساتھ مار پیٹ کی تھی۔ سینیئر ایڈووکیٹ اندرا جے سنگ نے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولیس کے اہلکار وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر کیمپس میں داخل ہوئے اور طلباء کو بے دردی سے مارا پیٹا، جس سے کئی طلباء بری طرح زخمی ہوئے۔ جے سنگھ نے جسٹس سدھارتھ مردول اور تلونت سنگھ کی بنچ کو بتایا کہ جامعہ کے وائس چانسلر نے کہا ہے کہ پولیس نے یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے کوئی اجازت نہیں لی تھی اور اس لیے یہ خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا پولیس کا داخلہ مکمل طور پر غیر مجاز تھا، انہیں قانون کی کوئی حمایت حاصل نہیں تھی اور یونیورسٹی کے اندر اور باہر بھی طاقت کا استعمال بالکل غیر متناسب تھا۔ اس لیے یہ خلاف ورزی کا معاملہ بنتا ہے۔

سینیئر ایڈوکیٹ ان درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوئے تھے، جو پرامن احتجاج کر رہے طلباء کو مبینہ طور پر پیٹنے کے الزام میں دہلی پولیس کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دراصل دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے خلاف جامعہ میں مظاہرے کیے جا رہے تھے، بہت سے طلباء نے اس وقت پارلیمنٹ تک احتجاجی مارچ کا اہتمام کیا تھا، جس پر دہلی پولیس کے افسران نے مبینہ طور پر بغیر اجازت کے یونیورسٹی کیمپس اور لائبریری میں داخل ہو کر اور طلباء کے ساتھ مار پیٹ کی۔

اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں کئی عرضیاں دائر کی گئیں، جس میں دہلی پولیس کے مبینہ کردار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ان درخواستوں میں عدالت کی نگرانی میں تحقیقات اور دہلی پولیس کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ درخواستیں تقریباً تین سال سے ہائی کورٹ کے سامنے زیر التوا ہیں۔ اکتوبر 2022 میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے درخواستوں پر جلد فیصلہ کرنے کی درخواست کی۔ اس کے بعد معاملات کو چیف جسٹس ستیش چندر شرما کی عدالت سے جسٹس مردول کی سربراہی والی بنچ کو منتقل کر دیا گیا۔

جے سنگ نے کہا کہ عدالت کو پولیس کے ذریعہ طاقت کے غیر متناسب استعمال کے معاملے سے نمٹنا پڑے گا۔ انہوں نے جارج فلائیڈ کیس کا بھی حوالہ دیا جہاں ایک سیاہ فام امریکی شخص کو گرفتاری کے دوران پولیس نے ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے نے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا تھا۔ جسٹس مردول نے کہا کہ "ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہندوستان میں عدالتوں نے طاقت کے بے بیجا استعمال پر کافی فاصلے کیے ہیں۔ اگر آپ ہماری توجہ جارج فلائیڈ کیس کی طرف مبذول کراتے ہیں تو ہم اس پر بھی غور کریں گے۔ لیکن ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ اس معاملے پر نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ اس عدالت اور کئی دیگر عدالتوں کے پاس بھی کافی فقہ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Jamia Millia Islamia ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر منتخب

دریں اثناء ایڈوکیٹ رجت نائر دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت کے سامنے عرضی گزار تیسرے فریق کی طرف سے ہیں جن کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ متاثرہ افراد یا مبینہ متاثرین نہیں ہیں۔ عدالت نے دہلی پولیس کو انکوائری رپورٹ کو ریکارڈ پر رکھنے کا حکم دیا۔ بنچ نے ایک اور معاملے میں درخواست گزاروں کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ مواد کو ریکارڈ پر رکھیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے سے پہلے حکام کے ساتھ شکایت درج کرائی تھی۔ کیس کی دوبارہ سماعت 8 مئی کو ہوگی۔

Last Updated : Mar 14, 2023, 7:15 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.