نئی دہلی: یوکرین جنگ کی پہلی برسی کے بعد نئی دہلی میں جی-20 وزرائے خارجہ کی میٹنگ سے پہلے بھارت نے آج واضح کیا کہ اس جی-20 اجلاس میں اقتصادی خرابیوں پر بات چیت کی جائے گی۔ یوکرین جنگ کے اثرات اور ان کے حل پر بات چیت ہو سکتی ہے لیکن جنگ کے سیاسی اور سفارتی مسائل پر بات نہیں ہو سکتی۔ ذرائع نے آج یہاں بتایا کہ جی-20 دراصل اقتصادی معاملات کا فورم ہے نہ کہ سیاسی اور سفارتی معاملات کے لیے۔ یوکرین کی جنگ کے سیاسی اور سفارتی مسائل یا جنگ کو روکنے کی کوششیں عالمی حکمرانی کے معاملات ہیں اور ان کو حل کرنا اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک عالمی برادری پر یوکرین کی جنگ کے معاشی اثرات کا تعلق ہے تو ان پر جی-20 اجلاس میں بات چیت کی جا سکتی ہے اور اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ عالمی برادری یہ سمجھ رہی ہے کہ اقوام متحدہ کا ایک کثیرالجہتی عالمی گورننگ باڈی کے طور پر کردار غیر موثر ہو چکا ہے اور یوکرین جنگ کا حل نہ نکال پانے کو اس کی ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق جی ٹوئنٹی اجلاس کے لیے یوکرین کی جنگ بالخصوص سیاسی اور سفارتی معاملات کو اٹھانا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ کی مطابقت ختم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک بالخصوص گلوبل ساؤتھ کے ترقی پذیر ممالک اقوام متحدہ میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: G20 Meeting in Manipur Concludes منی پور میں جی 20 کانفرنس اختتام پزیر
ہندوستان کی صدارت کے دوران جی-20 کے واقعات اور ان کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ جی-20 کی صدارت کا یہ تیسرا مہینہ ہے۔ اب ملک کے 19 شہروں میں 22 اجلاس ہو چکے ہیں اور فروری میں آٹھ شہروں میں 11 اجلاسوں کی تجویز ہے۔ آنے والے مہینوں میں ملاقاتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ جی-20 پر چار ورکنگ گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان اجلاسوں میں 43 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اور سب کو اپنے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔
یواین آئی