ETV Bharat / bharat

دہلی:’علامہ شبلی نعمانی عہد جدید کے نامور مفکر تھے‘ دانشورں کا خطاب - دانشورں کا خطاب

پروفیسر سید جمال نےشبلی نعمانی کا شجرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 4 جون 1857 کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر مولوی فاروق چریا کوٹی سے حاصل کی۔ 1876 میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔

دانشورں کا خطاب
دانشورں کا خطاب
author img

By

Published : Oct 26, 2021, 2:11 PM IST

انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز کے زیر اہتمام ویبنار میں عہد جدید کے معلم اول علامہ شبلی نعمانی احساس مفکر ،افکار واصلاحات کے عنوان پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں علمی شخصیات نے اپنے مقالہ پیش کیا۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے ‘زو‘ کے ذریعہ ندوۃ العلما کے ناظم مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے شرکت کی ،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلا شبہ علامہ شبلی نعمانی عہد جدید کے نامور مفکر،انشا پرداز اور معلم اول تھے۔ ضرورت ہے کہ آج کے دور میں ان کے نظریات ان کے افکار وخیالات سے جدید نسل کو آگاہ کیا جائے۔ ان کی خدمات سامنے لائے جائیں،آئی او ایس نے علامہ شبلی نعمانی پر سمینار کا انعقاد کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے،جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔


اخری سیشن کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمدمنظور عالم نےکہا کہ علامہ شبلی نعمانی مغربی تہذیب اور اس کے ادب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔ سرسیدکے رفقا میں وہ تنہا تھے جو آخری عمر تک اسلامی تہذیب وادب کے دفاع میں اپنے قلم سے جہاد کرتے رہے۔ انہوں نے یورپی اسکالروں کی اس بہتان طرازی اور اخترا پروازی کا پردہ چاک کیا جو مسلمانو ں کے تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنوں پر شب خون ڈالنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے قسمت آزمائی جاری تھی جس کی وجہ سے نوجوان طبقہ اپنے مشاہیر کے عقائد اور تہذیب پر شرمندگی محسوس کرکے ان کے مخالفین کی ہمنوائی کرنے لگا تھا۔
پروفیسر سید جمال نےشبلی نعمانی کا شجرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 4 جون 1857 کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر مولوی فاروق چریا کوٹی سے حاصل کی۔ 1876 میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب اسے ترک کردیا۔
علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خاں سے ملاقات ہوئی۔ چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سے شبلی نے علمی وتحقیقی زندگی کا آغاز کیا، پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔
1892 میں روم اور شام کا سفر کیا۔1898 میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آگئے۔ 1913 میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔1914 میں انتقال ہوا۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے افتتاحی خطاب میں علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت، علمی خدمات اور فکری رجحانات پر تفصیلی گفتگو کی۔
تقی الدین ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃالعلما لکھنؤ نے کلیدی خطاب میں علاہ شبلی نعمانی کی شخصیت ک اختصارسے پیش کئے۔

مزید پڑھیں:دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ایک علمی و تحقیقی ادارہ


خاص طور پر انہوں نے کہا کہ شبلی کا شمار ارد تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطور شاعر،مورخ،سوانح نگار اور سیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر زیڈ ایم خان نے کی اس کے علاوہ مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی سمیت متعددد اسکالروں نے اپنے مقالہ پیش کیا۔

انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز کے زیر اہتمام ویبنار میں عہد جدید کے معلم اول علامہ شبلی نعمانی احساس مفکر ،افکار واصلاحات کے عنوان پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں علمی شخصیات نے اپنے مقالہ پیش کیا۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے ‘زو‘ کے ذریعہ ندوۃ العلما کے ناظم مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے شرکت کی ،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلا شبہ علامہ شبلی نعمانی عہد جدید کے نامور مفکر،انشا پرداز اور معلم اول تھے۔ ضرورت ہے کہ آج کے دور میں ان کے نظریات ان کے افکار وخیالات سے جدید نسل کو آگاہ کیا جائے۔ ان کی خدمات سامنے لائے جائیں،آئی او ایس نے علامہ شبلی نعمانی پر سمینار کا انعقاد کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے،جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔


اخری سیشن کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمدمنظور عالم نےکہا کہ علامہ شبلی نعمانی مغربی تہذیب اور اس کے ادب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔ سرسیدکے رفقا میں وہ تنہا تھے جو آخری عمر تک اسلامی تہذیب وادب کے دفاع میں اپنے قلم سے جہاد کرتے رہے۔ انہوں نے یورپی اسکالروں کی اس بہتان طرازی اور اخترا پروازی کا پردہ چاک کیا جو مسلمانو ں کے تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنوں پر شب خون ڈالنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے قسمت آزمائی جاری تھی جس کی وجہ سے نوجوان طبقہ اپنے مشاہیر کے عقائد اور تہذیب پر شرمندگی محسوس کرکے ان کے مخالفین کی ہمنوائی کرنے لگا تھا۔
پروفیسر سید جمال نےشبلی نعمانی کا شجرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 4 جون 1857 کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر مولوی فاروق چریا کوٹی سے حاصل کی۔ 1876 میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب اسے ترک کردیا۔
علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خاں سے ملاقات ہوئی۔ چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سے شبلی نے علمی وتحقیقی زندگی کا آغاز کیا، پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔
1892 میں روم اور شام کا سفر کیا۔1898 میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آگئے۔ 1913 میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔1914 میں انتقال ہوا۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے افتتاحی خطاب میں علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت، علمی خدمات اور فکری رجحانات پر تفصیلی گفتگو کی۔
تقی الدین ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃالعلما لکھنؤ نے کلیدی خطاب میں علاہ شبلی نعمانی کی شخصیت ک اختصارسے پیش کئے۔

مزید پڑھیں:دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ایک علمی و تحقیقی ادارہ


خاص طور پر انہوں نے کہا کہ شبلی کا شمار ارد تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطور شاعر،مورخ،سوانح نگار اور سیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر زیڈ ایم خان نے کی اس کے علاوہ مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی سمیت متعددد اسکالروں نے اپنے مقالہ پیش کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.