لکھنؤ: ریاست اتر پردیش کے لکھنؤ میں فرنگی محل خانوادے سے تعلق رکھنے والے سدرت اللہ انصاری نے ہندو مذہب کی مقدس کتاب بھگوت گیتا سے اخذ کر ایک تبصرہ لکھا ہے، جس کا نام 'گیتا کی روحانی طاقت' رکھا ہے۔ یہ کتاب ایک طرف جہاں آپسی اتحاد، قومی ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کی مثال پیش کررہی ہے۔ وہیں انسانی زندگی کو کتاب کی روشنی میں بہتر بنانے کا بھی دعوی کیا جارہا ہے۔ اس کی رسم اجراء فرنگی محل میں واقع آل انڈیا تعلیم گھر کے آفس میں ہوئی، جس میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر عباس رضا نیر، شہناز سدرت، سابق پی سی ایس افسر نریندر بھوشن اور سابق اطلاعاتی کمشنر ویریندر کمار سکسینہ موجود رہے۔ Muslims Man Wrote A Book on Gita
اس موقع پر لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر عباس رضا نیر نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لکھنؤ کی گنگا جمنی تہذیب ہے، جس کا نتیجہ کسی نہ کسی شکل و صورت میں ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سدرت اللہ انصاری نے عمر کے اس پڑاؤ میں اہم کام کیا ہے۔ مذہبی کتابیں کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت کی اجازت نہیں دیتی، یہی وجہ ہے کہ آج لکھنؤ کا مسلمان بھگوت گیتا پر کتاب لکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنڈت بھائی سنسکرت میں قران کا ترجمہ لکھ رہے ہیں، مسلم بھائی بھگوت گیتا پر کتاب لکھ رہے ہیں، اس سے بہتر کیا پوسکتا ہے۔ دونوں مذہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے بھی رام کے حوالے سے کہا تھا کہ رام کے وجود پر ہندوستاں کو فخر، اہل نظر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند۔ انہوں نے کہا کہ آپسی اتحاد گنگا جمنی تہذیب قومی یکجہتی کے حوالے سے متعدد قلم کار اور دانشوروں نے نتیجہ فکر کا اظہار کیا ہے، جس سے واضح طور پر پیغام جاتا ہے کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا، ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا۔
کتاب کے مصنف سدرت اللہ انصاری نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کی جب ہم نے گاندھی فلم دیکھی، اس وقت ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ گیتا کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ہم نے قرآن اور گیتا دونوں کو پڑھا ہے اور دونوں کے مابین مساوات نظرایا کئی مقامات پر روحانی طاقت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھگوت گیتا میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ سبھی مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ کسی بھی مذہب سے نفرت نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے گیتا کے متعدد شلوک کا حوالہ دیتے ہوئے روحانیت کا تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ کتاب انسانی زندگی میں انقلاب لا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندو مذہب کے کچھ رہنما اور اسلامی اسکالر اس بات پر زور دینے پر پوری طاقت دے رہے ہیں کہ وہ بڑے عالم ہیں تاہم اس بات پر زور نہیں دے رہے کہ مذہب اسلام کے کیا پیغامات ہیں اور انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔