دراصل یہ معاملہ 11 جولائی کا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اسکرین شاٹ وائرل ہوا، جس کے مطابق کنال شرما نام کے ایک نوجوان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کے ذریعے متنازعہ پوسٹ کیا جس میں مسلم خواتین کے بارے میں غیر مہذبانہ تبصرے کیے گیے ہیں اور دوسرے لوگوں کو مسلم خواتین کے ساتھ عصمت دری جیسے واقعات کے ارتکاب کی ترغیب دی۔
پوسٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جسے غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ایسا کرنے کے لیے کنال نے باقاعدہ آن لائن ایک فہرست بھی جاری کی۔ جس میں مسلم لڑکیوں سے نازیبا تعلقات قائم کرنے کے لیے اکسایا گیا تھا۔ اس میں مسلم خواتین کے نام فون نمبرز اور ایدریس لکھے ہیں جب کہ فہرست کے آخر میں ڈیڈیکیٹڈ ٹو آل ہندو بوائز لکھا گیا ہے۔ یہ فہرست سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہے۔
کنال شرما کی تصویر سوشل میڈیا پر آتے ہی ٹویٹر پر غازی آباد پولیس کو ٹیگ کیا جانا شروع ہو گیا جس کے بعد غازی آباد پولیس نے اپنا بیان جاری کیا کہ 'سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کے ذریعے کی گئی متنازعہ پوسٹ کا تعلق غازی آباد سے نہیں ہے بلکہ یہ شخص دہلی کا رہنے والا ہے اس معاملے میں دہلی پولیس کو آگاہ کیا جا چکا ہے'۔
اس کے بعد گذشتہ شب دہلی خواتین کمیشن کے چیئرپرسن سواتی مالیوال نے ٹویٹ کر کےکہا کہ یہ بے حد گھٹیا حرکت ہے ہے جس کے لیے کنال شرما نام کا یہ آدمی سلاخوں کے پیچھے ہونا ضروری ہے، انہوں نے غازی آباد پولیس سے ایف آئی آر درج کرکے اسے گرفتار کرنے کی بات کہی۔
جس کے بعد غازی آباد پولیس کی جانب سے پھر سے ٹویٹ کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ معاملہ دہلی کا ہے اس لیے دہلی پولیس کو اس معاملے کی جانکاری دے دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:
Islamophobia: اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت سے خصوصی نمائندے کی تقرری کا مطالبہ
اس معاملے پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے سواتی مالیوال سے بات کرنے کی کوشش کی جس میں ان کی جانب سے فی الحال اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا گیا۔