ETV Bharat / bharat

Musharraf Four-Point Formula And Kashmir پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولا اور کشمیر

author img

By

Published : Feb 5, 2023, 5:44 PM IST

Updated : Feb 5, 2023, 8:16 PM IST

مشرف کی موت نے کشمیر کی یادوں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ ان کے دور حکومت میں ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہوا تھا۔ مشرف کے آٹھ سالہ دور حکومت کو کشمیر کی تاریخ اور سیاست میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیوں کہ انہیں بھارت کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کےلیے چار نکاتی فارمولے کا معمار سمجھا جاتا تھا۔

پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولا اور کشمیر
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولا اور کشمیر

سرینگر: سابق آرمی چیف اور پاکستان کے صدر پرویز مشرف طویل علالت کے بعد اتوار کو متحدہ عرب امارات کے امریکن ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ وہ 79 برس کے تھے۔ مشرف کی موت نے ایک بار پھر کشمیر سے متعلق ان کے چار نکاتی فارمولہ کی یادوں کو تازہ کر دیا ہے۔ ان کے دور حکومت میں ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہوا تھا۔ مشرف کی آٹھ سالہ دور حکومت کو کشمیر کی تاریخ اور سیاست میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیوں کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کےلیے کوششوں کا معمار سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 2006 میں مشرف نے چار نکاتی فارمولے کا تصور پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے منقسم جموں و کشمیر کے لیے غیر فوجی سازی، خود مختاری، لائن آف کنٹرول کے اس پار آزادانہ نقل و حرکت اور فارمولے پر عمل درآمد کے لیے ہندوستان و پاکستان کے درمیان مشترکہ میکانزم پر زور دیا تھا۔ وہیں یہ کہا جاتا ہے کہ قومی دھارے کے رہنما عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، ایم وائی تاریگامی اور دیگر رہنماؤں نے ہمیشہ اس فارمولے کا خیرمقدم کیا۔

مرحوم سید علی گیلانی جنہیں سخت گیر کہا جاتا تھا، وہ چار نکاتی فارمولے کی مخالفت کرتے تھے لیکن میر واعظ عمر فاروق اور دیگر علیحدگی پسندوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ وہیں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اس مخالف موقف نے حریت کانفرنس میں پھوٹ بھی ڈالی تھی، جسے پاٹنا مشکل رہا۔ گیلانی کی جانب سے مشرف کے فارمولے کی سخت مخالفت کشمیر کی علیحدگی پسند سیاست میں ان کی اہمیت کے لیے ایک ایندھن تھی، جس میں میرواعظ اور ان کے دیگر رہنماؤں کو اعتدال پسند کہا جاتا تھا۔

گیلانی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں تھے جبکہ میرواعظ عمر فاروق کسی بھی مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے تھے۔ مشرف نے گیلانی کو ان کے فارمولے کی مخالفت کرنے کے بعد سائڈ لائن کر دیا حالانکہ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے اور کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کے دوران اس مسئلے پر اعتدال پسندوں نے نئی دہلی میں کئی دور کی بات چیت کی۔ منموہن سنگھ کی قیادت میں سنہ 2005 میں جب میر واعظ عمر سے گیلانی کی جانب سے چار نکاتی فارمولے کی مخالفت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ 'یہ ذاتی سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے۔'

گیلانی کا چار نکاتی فارمولے کے بارے میں سختی اس قدر تھی کہ جب 2008 میں مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو گیلانی نے اسے کشمیر کے لوگوں کے لیے ایک اچھی خبر قرار دیا، اس وقت وہ سرینگر کے ٹورسٹ ریسپشن گراؤنڈ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ مشرف کے دور حکومت میں مرکزی دھارے کے رہنما بشمول سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ (جو اس وقت ایم پی تھے)، محبوبہ مفتی(جو اس وقت ایم ایل اے تھیں)، اور ان کے والد مرحوم مفتی سعید (اس وقت جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے)، اور ایم وائی تاریگامی نے پگواش کانفرنس کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران مشرف نے ان کا استقبال گرم جوشی کے ساتھ کیا تھا۔ علیحدگی پسندوں اور مرکزی دھارے کے رہنماؤں کے پاکستان کے ان دوروں کا مقصد چار نکاتی فارمولے اور تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے زمین ہموار کرنا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان کے فوجی جنرل کے طور پر انہوں نے سنہ 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل جنگ کی قیادت کی۔ اسی سال مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور اگست 2008 تک اقتدار میں رہے۔ سنہ 2008 میں جب استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ وہیں جولائی 2001 میں مشرف نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ امن سربراہی اجلاس کے لیے آگرہ کا دورہ کیا، لیکن معاہدہ ناکام ہو گیا۔ دونوں ملکوں نے معاہدے کی ناکامی پر ایک دوسرے پر الزام لگایا۔

مشرف کی موت، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کے بدلے ہوئے منظر نامے کے باوجود، بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ چار نکاتی فارمولہ اب بھی پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موزوں ہے۔ وہیں جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کیا کہ ''گہری تعزیت۔ شاید واحد پاکستانی جنرل جس نے حقیقی طور پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش کی۔ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق اور ہندوستان اور پاکستان کے لیے قابل قبول حل چاہتے تھے۔''

یہ بھی پڑھیں: Special Story On Pervez Musharraf پرویز مشرف کا فوجی طاقت سے سیاست تک کا سفر

بھارت کے ایک سرکردہ دفاعی ماہر پروین ساہنی نے گزشتہ سال اپریل میں لکھا تھا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھارت کے ساتھ کشمیر پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں، یہ عمل 2008 میں جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے بعد مشرف کے دور میں روک دیا گیا تھا۔ '

سرینگر: سابق آرمی چیف اور پاکستان کے صدر پرویز مشرف طویل علالت کے بعد اتوار کو متحدہ عرب امارات کے امریکن ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ وہ 79 برس کے تھے۔ مشرف کی موت نے ایک بار پھر کشمیر سے متعلق ان کے چار نکاتی فارمولہ کی یادوں کو تازہ کر دیا ہے۔ ان کے دور حکومت میں ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہوا تھا۔ مشرف کی آٹھ سالہ دور حکومت کو کشمیر کی تاریخ اور سیاست میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیوں کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کےلیے کوششوں کا معمار سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 2006 میں مشرف نے چار نکاتی فارمولے کا تصور پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے منقسم جموں و کشمیر کے لیے غیر فوجی سازی، خود مختاری، لائن آف کنٹرول کے اس پار آزادانہ نقل و حرکت اور فارمولے پر عمل درآمد کے لیے ہندوستان و پاکستان کے درمیان مشترکہ میکانزم پر زور دیا تھا۔ وہیں یہ کہا جاتا ہے کہ قومی دھارے کے رہنما عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، ایم وائی تاریگامی اور دیگر رہنماؤں نے ہمیشہ اس فارمولے کا خیرمقدم کیا۔

مرحوم سید علی گیلانی جنہیں سخت گیر کہا جاتا تھا، وہ چار نکاتی فارمولے کی مخالفت کرتے تھے لیکن میر واعظ عمر فاروق اور دیگر علیحدگی پسندوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ وہیں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اس مخالف موقف نے حریت کانفرنس میں پھوٹ بھی ڈالی تھی، جسے پاٹنا مشکل رہا۔ گیلانی کی جانب سے مشرف کے فارمولے کی سخت مخالفت کشمیر کی علیحدگی پسند سیاست میں ان کی اہمیت کے لیے ایک ایندھن تھی، جس میں میرواعظ اور ان کے دیگر رہنماؤں کو اعتدال پسند کہا جاتا تھا۔

گیلانی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں تھے جبکہ میرواعظ عمر فاروق کسی بھی مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے تھے۔ مشرف نے گیلانی کو ان کے فارمولے کی مخالفت کرنے کے بعد سائڈ لائن کر دیا حالانکہ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے اور کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کے دوران اس مسئلے پر اعتدال پسندوں نے نئی دہلی میں کئی دور کی بات چیت کی۔ منموہن سنگھ کی قیادت میں سنہ 2005 میں جب میر واعظ عمر سے گیلانی کی جانب سے چار نکاتی فارمولے کی مخالفت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ 'یہ ذاتی سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے۔'

گیلانی کا چار نکاتی فارمولے کے بارے میں سختی اس قدر تھی کہ جب 2008 میں مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو گیلانی نے اسے کشمیر کے لوگوں کے لیے ایک اچھی خبر قرار دیا، اس وقت وہ سرینگر کے ٹورسٹ ریسپشن گراؤنڈ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ مشرف کے دور حکومت میں مرکزی دھارے کے رہنما بشمول سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ (جو اس وقت ایم پی تھے)، محبوبہ مفتی(جو اس وقت ایم ایل اے تھیں)، اور ان کے والد مرحوم مفتی سعید (اس وقت جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے)، اور ایم وائی تاریگامی نے پگواش کانفرنس کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران مشرف نے ان کا استقبال گرم جوشی کے ساتھ کیا تھا۔ علیحدگی پسندوں اور مرکزی دھارے کے رہنماؤں کے پاکستان کے ان دوروں کا مقصد چار نکاتی فارمولے اور تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے زمین ہموار کرنا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان کے فوجی جنرل کے طور پر انہوں نے سنہ 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل جنگ کی قیادت کی۔ اسی سال مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور اگست 2008 تک اقتدار میں رہے۔ سنہ 2008 میں جب استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ وہیں جولائی 2001 میں مشرف نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ امن سربراہی اجلاس کے لیے آگرہ کا دورہ کیا، لیکن معاہدہ ناکام ہو گیا۔ دونوں ملکوں نے معاہدے کی ناکامی پر ایک دوسرے پر الزام لگایا۔

مشرف کی موت، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کے بدلے ہوئے منظر نامے کے باوجود، بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ چار نکاتی فارمولہ اب بھی پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موزوں ہے۔ وہیں جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کیا کہ ''گہری تعزیت۔ شاید واحد پاکستانی جنرل جس نے حقیقی طور پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش کی۔ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق اور ہندوستان اور پاکستان کے لیے قابل قبول حل چاہتے تھے۔''

یہ بھی پڑھیں: Special Story On Pervez Musharraf پرویز مشرف کا فوجی طاقت سے سیاست تک کا سفر

بھارت کے ایک سرکردہ دفاعی ماہر پروین ساہنی نے گزشتہ سال اپریل میں لکھا تھا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھارت کے ساتھ کشمیر پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں، یہ عمل 2008 میں جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے بعد مشرف کے دور میں روک دیا گیا تھا۔ '

Last Updated : Feb 5, 2023, 8:16 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.