ETV Bharat / bharat

Offering Prayers At Home گھر میں اجتماعی نماز ادا کرنے والوں کے خلاف درج مقدمہ خارج - مرادآباد میں اجتماعی نماز

مرادآباد پولیس نے دولہے پور گاؤں کے ایک گھر میں اجتماعی نماز ادا کرنے پر 26 افراد کے خلاف درج مقدمے کو خارج کردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جانچ کے دوران معلوم ہوا کہ یہ کیس بالکل بے بنیاد ہے۔ Mass gathering for namaz at home

مرادآباد پولیس نے اجتماعی نماز ادا کرنے والوں کے خلاف درج مقدمے کو خارج کر دیا
مرادآباد پولیس نے اجتماعی نماز ادا کرنے والوں کے خلاف درج مقدمے کو خارج کر دیا
author img

By

Published : Aug 30, 2022, 4:20 PM IST

مرادآباد: ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد کے تھانہ چھجلوٹ علاقے کے دولہے پور گاؤں میں واقع ایک گھر کے اندر اجتماعی نماز ادا کرنے پر 26 افراد کے خلاف مقدمے درج کیا گیا۔ کیس کی جانچ ایس ایس پی نے سی او کانتھ کو سونپی تھی۔ سی او نے معاملے کی تفتیش کی اور تحقیقاتی رپورٹ کے بعد پولیس نے کیس کو خارج کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے نماز ادا کرنے کو لے کر کیس درج کرایا تھا، جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ کیس بالکل بے بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر کیس کو بند کر دیا گیا ہے۔The Moradabad police dismissed the case registered against those who offered prayers at home

مرادآباد پولیس نے اجتماعی نماز ادا کرنے والوں کے خلاف درج مقدمے کو خارج کر دیا

یہ معلومات مرادآباد پولیس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے شیئر کی ہے، جس کے بعد ایس ایس پی ہیمنت کٹیال نے جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی جانچ سی او کانٹھ نے کی ہے، جس میں واقعہ ثابت نہیں ہوسکا، جس کی بنیاد پر کیس کو خارج کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مراد آباد کے تھانہ چھجلوٹ کے دلہے پور گاؤں میں مسلمانوں نے ایک گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کی جس پر ہندو مذہب کے لوگوں کو اعتراض ہوا اور انہوں نے تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ دونوں فریق کے مابین اس سے قبل ایک سمجھوتہ ہوا تھا اور گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کرنا اس سمجھوتے کی خلاف وزری ہے۔

ہندو فریق کا کہنا ہے کہ گاؤں میں کوئی مندر نہیں ہے، ہم لوگ دوسرے گاؤں پوجا کرنے جاتے ہیں ہم نہیں چاہتے ہیں کہ گاؤں میں کوئی نئی روایت شروع ہو۔ اس حوالے سے تھانہ چھجلوٹ میں 16 نامزد اور 10 نامعلوم کے خلاف شکایت درج کی گئی۔ ایس پی دیہات سندیپ کمار مینا نے کہا کہ اس پورے معاملے کی جانچ کا حکم دیا گیا ہے۔

معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوری کارروائی کی گئی۔ ماحول خراب کرنے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے سلسلے میں کیس درج کیا گیا۔ واضح رہے کہ گاؤں اس سے قبل بھی دو مذہب کے ماننے والوں میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا تھا لیکن انتظامیہ نے دونوں فریق کو سمجھا کر صلح کرائی تھی۔

مزید پڑھیں:۔ مسجد میں نماز ادا کرنے پر متعدد افراد حراست میں

وہیں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے مراد آباد میں گھر میں نماز پڑھنے پر کیس درج ہونے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اویسی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کب تک ہوتا رہے گا؟

اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کرکے پی ایم مودی سے پوچھا کہ ’’بھارت میں مسلمان اب گھر میں بھی نماز نہیں پڑھ سکتے؟ کیا اب نماز پڑھنے کے لیے بھی حکومت/پولیس سے اجازت لینی ہوگی؟ نریندر مودی کو اس کا جواب دینا چاہیے کہ کب تک ملک میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے گا؟'' ایم آئی ایم رہنما نے میں مزید لکھا کہ ’’معاشرے میں بنیاد پرستی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب دوسروں کے گھروں میں نماز پڑھنے سے بھی لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔‘‘

مرادآباد: ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد کے تھانہ چھجلوٹ علاقے کے دولہے پور گاؤں میں واقع ایک گھر کے اندر اجتماعی نماز ادا کرنے پر 26 افراد کے خلاف مقدمے درج کیا گیا۔ کیس کی جانچ ایس ایس پی نے سی او کانتھ کو سونپی تھی۔ سی او نے معاملے کی تفتیش کی اور تحقیقاتی رپورٹ کے بعد پولیس نے کیس کو خارج کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے نماز ادا کرنے کو لے کر کیس درج کرایا تھا، جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ کیس بالکل بے بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر کیس کو بند کر دیا گیا ہے۔The Moradabad police dismissed the case registered against those who offered prayers at home

مرادآباد پولیس نے اجتماعی نماز ادا کرنے والوں کے خلاف درج مقدمے کو خارج کر دیا

یہ معلومات مرادآباد پولیس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے شیئر کی ہے، جس کے بعد ایس ایس پی ہیمنت کٹیال نے جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی جانچ سی او کانٹھ نے کی ہے، جس میں واقعہ ثابت نہیں ہوسکا، جس کی بنیاد پر کیس کو خارج کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مراد آباد کے تھانہ چھجلوٹ کے دلہے پور گاؤں میں مسلمانوں نے ایک گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کی جس پر ہندو مذہب کے لوگوں کو اعتراض ہوا اور انہوں نے تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ دونوں فریق کے مابین اس سے قبل ایک سمجھوتہ ہوا تھا اور گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کرنا اس سمجھوتے کی خلاف وزری ہے۔

ہندو فریق کا کہنا ہے کہ گاؤں میں کوئی مندر نہیں ہے، ہم لوگ دوسرے گاؤں پوجا کرنے جاتے ہیں ہم نہیں چاہتے ہیں کہ گاؤں میں کوئی نئی روایت شروع ہو۔ اس حوالے سے تھانہ چھجلوٹ میں 16 نامزد اور 10 نامعلوم کے خلاف شکایت درج کی گئی۔ ایس پی دیہات سندیپ کمار مینا نے کہا کہ اس پورے معاملے کی جانچ کا حکم دیا گیا ہے۔

معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوری کارروائی کی گئی۔ ماحول خراب کرنے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے سلسلے میں کیس درج کیا گیا۔ واضح رہے کہ گاؤں اس سے قبل بھی دو مذہب کے ماننے والوں میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا تھا لیکن انتظامیہ نے دونوں فریق کو سمجھا کر صلح کرائی تھی۔

مزید پڑھیں:۔ مسجد میں نماز ادا کرنے پر متعدد افراد حراست میں

وہیں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے مراد آباد میں گھر میں نماز پڑھنے پر کیس درج ہونے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اویسی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کب تک ہوتا رہے گا؟

اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کرکے پی ایم مودی سے پوچھا کہ ’’بھارت میں مسلمان اب گھر میں بھی نماز نہیں پڑھ سکتے؟ کیا اب نماز پڑھنے کے لیے بھی حکومت/پولیس سے اجازت لینی ہوگی؟ نریندر مودی کو اس کا جواب دینا چاہیے کہ کب تک ملک میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے گا؟'' ایم آئی ایم رہنما نے میں مزید لکھا کہ ’’معاشرے میں بنیاد پرستی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب دوسروں کے گھروں میں نماز پڑھنے سے بھی لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.