قومی داالحکومت دہلی کے چاندنی چوک کے بلی ماران میں گلی قاسم جان کی تنگ گلیوں کے درمیان مرزا غالب کی حویلی غالب کے یوم پیدائش کے موقع پر بھی ویران دکھائی دے رہی ہے۔
کووڈ وبا کے باعث نافذ لاک ڈاؤن کے درمیان ملک بھر میں تفریحی مقامات کو بند کر دیا گیا تھا اور اسی دوران غالب کی حویلی پر بھی تالہ لگا دیا گیا۔
غالب کی یہ حویلی اس قدر تنگ گلیوں میں واقع ہے کہ آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ اس شاعر کی حویلی ہے جس نے اردو شاعری کو بلندی کے اس مقام پر پہنچایا، نثر میں ایسے نقوش چھوڑے جہاں تک نہ غالب سے پہلے کوئی پہنچا تھا اور نہ آئندہ کوئی پہنچ سکتا ہے۔ حویلی تک پہنچنے میں لوگوں کو کافی دشواریاں پیش آتی ہیں، تجاوزات نے بھی غالب کی حویلی کے دروازے تک کو خود میں شامل کر لیا ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب 1797 میں آگرہ کے علاقے کلاں محل میں پیدا ہوئے تھے۔ آگرہ سے غالب دہلی آگئے اور ہمیشہ دہلی میں ہی رہے، اس درمیان کچھ دنوں کے لئے غالب نے کلکتے کا بھی سفر کیا تھا لیکن دہلی کو ہی غالب نے اپنا مسکن بنایا اور یہیں سے اردو شاعری کو بلندی کے اس مقام پہنچایا۔
گلی قاسم جاں کی اس حویلی کو دیکھنے کے لئے آج بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں لیکن انہیں مایوس واپس جانا پڑ رہا ہے کیونکہ کووڈ وبا کے باعث یہ حویلی ابھی بھی بند ہے حالانکہ اس درمیان مختلف مقامات کو کھول دیا گیا ہے۔
حویلی کے سیکیورٹی گارڈ نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حویلی مارچ سے بند ہے۔ ہر دن بڑی تعداد میں لوگ یہاں اس حویلی کو دیکھنے آتے ہیں اور آج غالب کے یوم پیدائش کے موقع پر زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
غالب کی حویلی دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں غالب سے جڑی ہوئی یادگار کو رکھا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں غالب کا دیوان ہے، جہاں گلزار کے ذریعہ غالب کا مجسمہ لگایا گیا ہے۔ اس حویلی کے باہر کے حصے میں تجاوزات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک