دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے مایہ ناز استاد، کئی کتابوں کے مصنف اور عربی زبان و بیان پر گہری نظر رکھنے والے ادیب حضرت مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری کے انتقال پر ملال سے اہل ارریہ خصوصاً یہاں رہنے والے مولانا کے درجنوں شاگرد غمگین اور غمزدہ ہیں۔ مولانا کے شاگردوں کی آنکھیں نم ہیں اور اضطرابی کیفیت سے دوچار ہیں۔
مولانا کو ایک مثالی استاد سے تعبیر کرتے ہوئے ان کی خدمات کو یاد کرتےہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں۔
مولانا کے شاگرد رشید و جمعیۃ علماء ارریہ کے نائب صدر مفتی ہمایوں اقبال ندوی نے اس موقع پر آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حضرت مولانا نذر الحفیظ ندوی رحمہ اللہ کی شخصیت اور سیرت ہم طلباء کے لیے ایک آئیڈیل کی تھی۔
خصوصاً عربی زبان و ادب میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا، آپ کا درس نہایت سہل اور معیاری ہوتا، طلباء آپ کے درس میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے اور خود کو علم کے سمندر کے قریب پاتے جہاں چاروں طرف علم کا چشمہ جاری ہے اور لوگ پی پی کر سیراب ہو رہے ہیں۔
آپ بہترین استاذ کے علاوہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، آپ بھارت کے علاوہ عالم عرب کے سیاسی و ثقافتی حالات پر گہری نظر رکھتے تھے، عرب کے معیاری اخبارات میں آپ کے مقالات و مضامین ترجیحی طور پر شائع ہوتے۔ اسی کے نتیجے میں آپ نے مغربی میڈیا اور اس کے اثرات پر وقیع اور جامع کتاب لکھی جس کی پذیرائی دنیا بھر کے صحافی و دانشوران نے کی۔
مفتی ہمایوں اقبال ندوی نے کہا کہ مولانا نذر الحفیظ رحمہ اللہ حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی کے خصوصی تربیت یافتہ تھے اور مولانا تا زندگی مولانا علی میاں ندوی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا رہے، مولانا کی علمی و تدریسی خدمات قابل رشک اور ہم جیسے شاگردوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔