ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ نے جمعرات کو واضح کر دیا کہ کوئی بھی قانون یا مذہب کسی والد کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی بیٹی کو صرف اس بات کے لیے ہراساں کرے کہ اس نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف شادی کی۔
اپنے شوہر کے ساتھ ایک خاتون کی جانب سے دائر تحفظ درخواست پر سماعت کے بعد جسٹس سنجے دھر نے کہا کہ دونوں درخواست گزاروں کی شادی آپسی رضامندی سے ہوئی ہے اور کسی دباؤ میں نہیں ہوئی۔
خاتون کا دعویٰ ہے کہ اُن کے والد اُن کی شادی ایک ناخواندہ شخص سے کروانا چاہتے تھے جو انہیں منظور نہیں تھا۔ وہیں ان کے والد کا کہنا ہے کہ شریعت کے مطابق والد کی رضامندی ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: گاڑیوں سے 9 فیصد اضافی ٹوکن ٹیکس وصول کرنے پر ہائی کورٹ کی روک
جسٹس دھر کا مزید کہنا تھا کہ 'اگرچہ خاتون نے شرعی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے والد اس کو ہراساں کریں اور دھمکیاں دیں۔ خاتون کے والد عدالت سے رجوع کر کے قانونی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔'