دہلی: انسان کی تعمیر و ترقی اور سماج کی فلاح و بہبود میں اساتذہ کا کافی اہم کردار ہوتا ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن ان دنوں دہلی وقف بورڈ کے زیر انتظام مدرسہ عالیہ کے اساتذہ کافی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ گذشتہ کئی مہینوں سے ان کی تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں کئی طرح کی پریشانیاں آگئی ہیں، ان کا گزر بسر مشکل ہوتا جارہا ہے۔ قومی دارالحکومت دہلی میں وقف بورڈ کے زیر انتظام ایک ہی مدرسہ ہے جس کا نام مدرسہ عالیہ ہے۔ یہ مدرسہ دہلی کی شاہی مسجد فتح پوری کے احاطے میں واقع ہے۔ اس مدرسہ میں مدرس کے طور پر تقریبا 15 افراد اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جنہیں گذشتہ 25 مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔Madarsa Aliya's teachers waiting for their salaries for 25 month
اس سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے مدرسہ عالیہ کے صدر مدرس مولانا جمیل احمد لوہی سے بات کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ 25 ماہ سے اپنی تنخواہ کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اب تک انہیں تنخواہ نہیں ملی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ 25 ماہ میں دہلی وقف بورڈ کے اتنے چکر کاٹ چکے ہیں کہ ہماری چپلیں بھی گھس گئی ہیں لیکن ہمیں ہماری تنخواہ نہیں ملی ہے، اب تو ہمارے پاس مدرسین کو تسلیاں دینے کا جواز بھی ختم ہوچکا ہے۔ وہیں مدرس محمد مسلم قاسمی نے کہا کہ ان کے 35 سالہ دور میں ایسا کبھی نہیں ہوا، جب انہیں اپنی تنخواہ کے لیے در در بھٹکنا پڑا ہو، جو لوگ آج وقف بورڈ کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں، انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ مدرسہ عالیہ کے مدرسین اپنے اہل خانہ کے اخراجات کس طرح سے پورا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ 'مدارس اساتذہ کی تنخواہیں روکنا قانون کی خلاف ورزی '
واضح رہے کہ دہلی وقف بورڈ گذشتہ چند ماہ سے مسلسل کئی مشکلات کا سامنا کررہا ہے، کبھی دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان اینٹی کرپشن بیورو کی تفتیش کے سبب سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں، ان پر وقف بورڈ میں بے ضابطگی کا الزام ہے۔ وہیں دہلی وقف بورڈ کے ملازمین گذشتہ تین ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کے سبب دفتر کے کام کاج کرنے کے بجائے احتجاج کر رہے ہیں، کبھی وقف بورڈ کے زیر انتظام آنے والے آئمہ و مؤذنین اپنی تنخواہوں کے مطالبات کو لیکر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے گھر کا گھیراؤ کر رہے ہیں تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ ان اساتذہ اور آئمہ و مؤذنین کی تنخواہیں کب وگزار ہوتی ہیں اور دہلی وقف بورڈ کب ان کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے؟