ETV Bharat / bharat

Royal Silver Shoes of the Nawabs of Awadh: نوابین اودھ کی شاہی چاندی کی جوتیوں کی روایت اب بھی برقرار، جانیں دلچسپ واقعہ - چاندی کی جوتی بنانے والا لکھنؤ میں واحد کاریگر

اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ، تہذیب و ادب، زبان و ثقافت، فنون لطیفہ و لذیذ کھانے اور سلیم شاہی جوتیوں کے لیے منفرد شناخت رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں جب مغربی تہذیب و تمدن نے ہر شہر کو تیزی سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس دور میں بھی لکھنؤ کی تہذیب و ادب میں قدیم روایتوں کی پاسداری کی جارہی ہے۔ Royal Silver Shoes of the Nawabs of Awadh

نوابین اودھ کی شاہی چاندی کی جوتیوں کی روایت اب بھی برقرار
Royal silver shoes of the Nawabs of Awadh
author img

By

Published : Feb 20, 2022, 8:16 PM IST

یہ ہیں لکھنؤ کے اشفاق احمد جو گزشتہ تقریباً 45 برس سے نوابی دور کی چاندی کی خوشنما اصلی موتی و جواہرات سے جڑی ہوئی جوتی، چپل اور سینڈل بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ ان کی تیار کردہ چاندی کی جوتیاں پہن کر نہ جانے کتنی خواتین چند لمحوں میں نواب زادی بن چکی ہیں۔ Royal Silver Shoes of the Nawabs of Awadh۔ انیسویں صدی کے اخیر میں نوابین اودھ، وزرا و رؤسا کے یہاں ہیرے جواہرات سے جڑی ہوئی چاندی کی جوتیاں پہننے کا رواج عام ہوگیا تھا یہی وجہ ہے کہ یہاں کے قدر داں نوابوں نے ماہر و مشاق سنار کو لکھنؤ میں اباد کیا جن کی نقاشی و دستکاری نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا۔ لکھنؤ کے بنے ہوئے زیورات بہتر اور خوبصورت ہونے کی سند ہوتے ہیں۔

ویڈیو

چاندی کی جوتی بنانے والے محمد اسحاق بتاتے ہیں کہ بچپن کے دور میں ہی والد اور بھائیوں سے جوتی بنانے کا ہنر سیکھا اور اسی کام سے وابستہ ہوگیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ یوں تو چاندی کی جوتیاں بنانے کا رواج دوسری شہروں میں بھی ہے لیکن اصل ایجاد لکھنؤ کے نوابوں کی مانی جاتی ہے۔

Royal silver shoes of the Nawabs of Awadh
نوابین اودھ کی شاہی چاندی کی جوتیوں کی روایت اب بھی برقرار

وہ بتاتے ہیں کہ چاندی کی جوتی بنانے میں سب سے اہم مرحلہ فریم تیار کرنا ہوتا ہے اس کے بعد چاندی کے پتر کو گرم کرکے مطلوب ڈیزائن و نقش کے لیے پیٹا جاتا ہے۔ اس کے بعد فریم میں پہنایا جاتا ہے فریم تیار ہونے کے بعد ہیرے جواہرات جڑے جاتے ہیں جس سے چاندی کی جوتیوں کی آب و تاب اور خوبصورتی مزید دوبالا ہو جاتی ہے۔

Royal silver shoes of the Nawabs of Awadh
نوابین اودھ کی شاہی چاندی کی جوتیوں کی روایت اب بھی برقرار

وہ بتاتے ہیں نہ صرف لکھنؤ بلکہ دور دراز علاقوں سے جوتی بنانے کے آرڈر آتے ہیں اور لکھنؤ کے سنار بھی جوتی بنانے کی مقدار چاندی دے کر مزدوری پر جوتی بنانے کا آرڈر کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

اشفاق بتاتے ہیں کہ میں چاندی کی جوتی بنانے والا لکھنؤ میں واحد کاریگر رہ گیا ہوں۔ کچھ برس قبل ہمارے والد اور بھائی چاندی کی جوتیاں بناتے تھے لیکن اب ہمارے بچے یا نئی نسل اس کام میں دلچسپی نہیں رہی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس کام میں آمدنی کم ہے اور حکومت بھی اس فن کو زندہ رکھنے میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ لکھنؤ کی قدیم تہذیب میں شامل چاندی کی جوتی بنانے والے کاریگر ہمارے بعد ناپید ہو جائیں گے۔ The only silver shoe maker in Lucknow

انہوں نے بتایا کہ موجودہ دور میں عوام اور صاحب حیثیت افراد چاندی کی جوتیاں خریدنے میں خوب دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا شوق پورا ہوتا ہے اور دوسرا ان کا پیسہ بھی محفوظ رہتا ہے، جب چاہیں بیج کر رقم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس نظریے کو لے کر اب عوام میں چاندی کی جوتیاں بنوانے یا خریدنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

یہ ہیں لکھنؤ کے اشفاق احمد جو گزشتہ تقریباً 45 برس سے نوابی دور کی چاندی کی خوشنما اصلی موتی و جواہرات سے جڑی ہوئی جوتی، چپل اور سینڈل بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ ان کی تیار کردہ چاندی کی جوتیاں پہن کر نہ جانے کتنی خواتین چند لمحوں میں نواب زادی بن چکی ہیں۔ Royal Silver Shoes of the Nawabs of Awadh۔ انیسویں صدی کے اخیر میں نوابین اودھ، وزرا و رؤسا کے یہاں ہیرے جواہرات سے جڑی ہوئی چاندی کی جوتیاں پہننے کا رواج عام ہوگیا تھا یہی وجہ ہے کہ یہاں کے قدر داں نوابوں نے ماہر و مشاق سنار کو لکھنؤ میں اباد کیا جن کی نقاشی و دستکاری نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا۔ لکھنؤ کے بنے ہوئے زیورات بہتر اور خوبصورت ہونے کی سند ہوتے ہیں۔

ویڈیو

چاندی کی جوتی بنانے والے محمد اسحاق بتاتے ہیں کہ بچپن کے دور میں ہی والد اور بھائیوں سے جوتی بنانے کا ہنر سیکھا اور اسی کام سے وابستہ ہوگیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ یوں تو چاندی کی جوتیاں بنانے کا رواج دوسری شہروں میں بھی ہے لیکن اصل ایجاد لکھنؤ کے نوابوں کی مانی جاتی ہے۔

Royal silver shoes of the Nawabs of Awadh
نوابین اودھ کی شاہی چاندی کی جوتیوں کی روایت اب بھی برقرار

وہ بتاتے ہیں کہ چاندی کی جوتی بنانے میں سب سے اہم مرحلہ فریم تیار کرنا ہوتا ہے اس کے بعد چاندی کے پتر کو گرم کرکے مطلوب ڈیزائن و نقش کے لیے پیٹا جاتا ہے۔ اس کے بعد فریم میں پہنایا جاتا ہے فریم تیار ہونے کے بعد ہیرے جواہرات جڑے جاتے ہیں جس سے چاندی کی جوتیوں کی آب و تاب اور خوبصورتی مزید دوبالا ہو جاتی ہے۔

Royal silver shoes of the Nawabs of Awadh
نوابین اودھ کی شاہی چاندی کی جوتیوں کی روایت اب بھی برقرار

وہ بتاتے ہیں نہ صرف لکھنؤ بلکہ دور دراز علاقوں سے جوتی بنانے کے آرڈر آتے ہیں اور لکھنؤ کے سنار بھی جوتی بنانے کی مقدار چاندی دے کر مزدوری پر جوتی بنانے کا آرڈر کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

اشفاق بتاتے ہیں کہ میں چاندی کی جوتی بنانے والا لکھنؤ میں واحد کاریگر رہ گیا ہوں۔ کچھ برس قبل ہمارے والد اور بھائی چاندی کی جوتیاں بناتے تھے لیکن اب ہمارے بچے یا نئی نسل اس کام میں دلچسپی نہیں رہی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس کام میں آمدنی کم ہے اور حکومت بھی اس فن کو زندہ رکھنے میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ لکھنؤ کی قدیم تہذیب میں شامل چاندی کی جوتی بنانے والے کاریگر ہمارے بعد ناپید ہو جائیں گے۔ The only silver shoe maker in Lucknow

انہوں نے بتایا کہ موجودہ دور میں عوام اور صاحب حیثیت افراد چاندی کی جوتیاں خریدنے میں خوب دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا شوق پورا ہوتا ہے اور دوسرا ان کا پیسہ بھی محفوظ رہتا ہے، جب چاہیں بیج کر رقم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس نظریے کو لے کر اب عوام میں چاندی کی جوتیاں بنوانے یا خریدنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.