ای ٹی وی بھارت نے مسلم مسافر خانہ میں کام کررہے ملازمین اور مسافروں کے ردعمل کو جاننے کی کوشش کی۔ نام بدلنے سے مستقبل میں کیا فرق پڑنے والا ہے اور کیا مسلم مسافر خانہ نام ہونے کی وجہ سے ہندو مذہب کے ماننے والے اس مسلم مسافر خانہ میں نہیں آرہے تھے؟
اس کے جواب میں مسافر خانہ میں مسافروں کی انٹری کرنے والے ملازم راجیش نے بتایا کہ نام بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ مسلم مسافر خانہ نام تھا تب بھی ہندو مسلم سبھی مذہب کے لوگ مسلم مسافر خانہ میں قیام کرنے کے لیے آتے تھے اور اب بھی آرہے ہیں۔ یہاں پر کسی قسم کا کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔
وہیں مسلم مسافر خانے میں رہ رہے ہیں مسافروں سے بھی اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس مسافر خانے میں زیادہ تر مسلمان مسافر آتے ہیں اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے پانچ وقت کی نماز ہوتی ہے کم پیسے میں لوگوں کو بہتر سہولت دستیاب ہیں اب جب نام تبدیل ہوگیا ہے تو ہوسکتا ہے اکثریتی طبقہ کے زیادہ افراد آئیں اور نشہ آور اشیاء جیسے شراب نوشی و دیگر نشہ آور چیزیں یہاں کھانا پینا شروع ہو جس سے لڑائی جھگڑے کا بھی خدشہ ہے۔ حالانکہ انتظامیہ کی جانب سے مسافر خانہ میں نشہ آور چیزیں کھانے پینے پر سخت پابندی عائد ہے۔
پٹنہ سے آئے ہوئے محمد اظہر نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے اس مسافر خانے میں قیام کرتے ہیں لیکن اب نام تبدیل ہونے کا اثر یہ پڑ سکتا ہے اس مسافر خانے میں سخت بھیڑ ہوجائے گی۔ اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو اسی مسافر خانہ میں جگہ ملتی تھی دھرم شالہ یا دیگر مذہب کے مسافر خانے میں مسلمانوں کو کمرہ نہیں دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر اکثریتی طبقہ کے لوگوں کا آنا شروع ہوجائے گا تو پھر اقلیتی طبقہ کے لوگ کہاں جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:'ترنگا یاترا میں حقیقی قوم پرستی کا پیغام دیا جائے گا'
واضح رہے کہ 1976 میں مسلم مسافر خانہ کی بنیاد مسلم پرسنل لاء کے صدر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے رکھی تھی۔ جس کے بنیادی ممبران سبھی مسلمان ہیں اور تبھی سے اس کا نام مسلم مسافر خانہ تھا، لیکن گزشتہ ماہ 19 جولائی کو محکمۂ حج و اوقاف کی جانب سے ایک سرکلر جاری کرکے اس کا نام یاتری نواس رکھا گیا ہے لیکن سرکلر میں نام بدلنے کی معقول وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔