ETV Bharat / bharat

لوک عدالت کے نظام کو مزید موثر بنانے کی ضرورت - etv bharat urdu

گزشتہ سال جب کووِڈ کے اثرات عروج پر تھے، قومی لوک عدالت کا اہتمام ملک میں دو بار ہوا تھا اور ان میں عدالت سے باہر ہی 12.6 لاکھ تنازعات کو نمٹایا گیا۔ جبکہ 12.8 لاکھ تنازعات میں متاثرین کو ایک ہزار کروڑ روپے تک کے معاوضے فراہم کئے گئے۔

Lok Adalat
Lok Adalat
author img

By

Published : Apr 13, 2021, 6:46 AM IST

Updated : Apr 13, 2021, 6:56 AM IST

آئین ہند کی دفعہ 29 اے سماج کے غریب اور پسماندہ طبقات کو قانونی امداد بہم پہنچانے اور سب کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے سے متعلق ہے۔ سال 1987ء یعنی ملک کی آزادی کے تقریباً چار دہائیوں بعد حکومت ہند نیند سے بیدار ہوئی اور قانونی امداد بہم پہنچانے اور سب کو یکساں مواقع بہم پہنچانے کی سبیل کی۔ اگرچہ لیگل سروس اتھارٹی ایکٹ کو پارلیمنٹ نے سال 1987ء میں ہی منظوری دی، تاہم نیشنل لیگل سروس اتھارٹی کا قیام ایکٹ کے 1995 ء میں نافذ ہوجانے کے بعد ہی عمل میں آیا۔

عام آدمی کو فوری انصاف بہم پہنچانے کے مقصد سے لوک عدالت کا نظام اور تنازعات کو حل کرانے کے دیگر ذرائع پیدا ہوگئے۔ تلنگانہ میں منعقدہ چوتھی نیشنل لوک عدالت گزشتہ سنیچر کو اختتام پذیر ہوئی۔ لوک عدالت کے ذریعے 39 ہزار معاملات نمٹائے گئے۔ دیگر معاملات میں متاثرین کو 49 کروڑ روپے تک کا معاوضہ فراہم کرایا گیا۔ مہاراشٹرا، دہلی، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش سمیت 16 ریاستوں میں کووِڈ کے پھیلاو کی وجہ سے لوک عدالتیں موخر کردی گئیں۔ کرناٹکہ میں مارچ کے آخری ہفتے میں لوک عدالتوں کا اہتمام کیا گیا، ان میں 3.3 لاکھ معاملات نمٹائے گئے، جن میں متاثرین میں ایک ہزار کروڑ روپے تک کے معاوضے تقسیم کئے گئے۔

گزشتہ سال جب کووِڈ کے اثرات عروج پر تھے، قومی لوک عدالت کا اہتمام ملک میں دو بار ہوا تھا اور ان میں عدالت سے باہر ہی 12.6 لاکھ تنازعات کو نمٹایا گیا۔ جبکہ 12.8 لاکھ تنازعات میں متاثرین کو ایک ہزار کروڑ روپے تک کے معاوضے فراہم کئے گئے۔

24 ریاستوں میں ریاستی سطح کی لیگل سروس اتھارٹی آن لائن لوک عدالت کا اہتمام کرتی ہے اور آڈیو، ویڈیو میڈیا کی وساطت سے فوری انصاف بہم پہنچایا جارہا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہےکہ ہمارا قانونی نظام بڑی تیزی سے نئی ٹیکنالوجی کو اختیار کر رہا ہے۔

دُنیا میں لوک عدالت طرز کا نظام کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ سالہاسال کے تجربے کی روشنی میں اس نظام کو مزید موثر بنایا جانا چاہیے۔ ہماری عدالتوں پر بھاری بوجھ ہے اور اس کی وجہ سے مقدمات میں مبتلا لوگ پریشان ہیں۔ صورتحال کو ٹھیک کرنے سے متعلق تجاویز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ ان تجاویز کو نافذ کرنے کا ہے۔

17 فیصد مقدمات ملک بھر کی ضلع اور ذیلی عدالتوں میں گزشتہ تین سے پانچ سال سے زیر سماعت ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں 20.4 فیصد مقدمات گزشتہ پانچ سے دس سالوں سے زیر التوا ہیں۔ جبکہ 17 فیصد مقدمات گزشتہ بیس سالوں سے التوا میں ہیں۔

پچاس فیصد سے زائد کیسز میں مدعیاں مرکزی یا ریاستی سرکاریں ہیں۔ اس طرح کی صورتحال کا کہیں کوئی موازنہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ تقریباً تین دہائی قبل لا کمیشن نے مشورہ دیا تھا کہ مقدمات کو صحیح طریقے سے شنوائی کے نتیجے میں زیر التوا کیسز میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی ماضی میں بتایا ہے کہ حکومت کا اپنے شہریوں کے تئیں رویہ محاذ آرائی پر مبنی نہیں بلکہ مصالحانہ ہونا چاہیے۔

زیادہ تر معاملات جو لوک عدالتوں میں آتے ہیں، زمین کے حصول، مزدوروں سے متعلق، پینشن سے متعلق، صارفین سے متعلق، میٹروں سے متعلق یا پھر بجلی، ٹیلی فون اور میونسپل سروسز سے متعلق ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عدالت عظمیٰ نے کہہ دیا ہے کہ حکومت کا ایسے معاملات میں شہریوں کے تئیں مصالحانہ رویہ ہونا چاہیے نہ کہ محاذ آرائی پر مبنی۔

لوگوں کی اُمیدوں سے مطابقت رکھتے ہوئے لوک عدالتوں کو اس طرح سے انصاف فراہم کرنا چاہیے کہ بے بس لوگوں کے دلوں سے بوجھ ہلکا ہو۔ سال 2011ء میں نیشنل لیگل سروس اتھارٹی نے اعلان کیا کہ ہر گاؤں میں کم از کم ایک لوک عدالت قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے دور دراز دیہات میں بھی قانونی امداد بہم پہنچائی جا سکے۔ آج اس طرح کے 14 ہزار لوک عدالت موجود ہیں جبکہ ملک میں دیہات کی مجموعی تعداد چھ لاکھ ہے۔ تیزی سے انصاف کی فراہمی اور لوگوں کو اُن کے دروازے پر انصاف پہنچانے کے ہدف کو پورا کرنے لئے ملک میں لوک عدالت کے نظام کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے۔

آئین ہند کی دفعہ 29 اے سماج کے غریب اور پسماندہ طبقات کو قانونی امداد بہم پہنچانے اور سب کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے سے متعلق ہے۔ سال 1987ء یعنی ملک کی آزادی کے تقریباً چار دہائیوں بعد حکومت ہند نیند سے بیدار ہوئی اور قانونی امداد بہم پہنچانے اور سب کو یکساں مواقع بہم پہنچانے کی سبیل کی۔ اگرچہ لیگل سروس اتھارٹی ایکٹ کو پارلیمنٹ نے سال 1987ء میں ہی منظوری دی، تاہم نیشنل لیگل سروس اتھارٹی کا قیام ایکٹ کے 1995 ء میں نافذ ہوجانے کے بعد ہی عمل میں آیا۔

عام آدمی کو فوری انصاف بہم پہنچانے کے مقصد سے لوک عدالت کا نظام اور تنازعات کو حل کرانے کے دیگر ذرائع پیدا ہوگئے۔ تلنگانہ میں منعقدہ چوتھی نیشنل لوک عدالت گزشتہ سنیچر کو اختتام پذیر ہوئی۔ لوک عدالت کے ذریعے 39 ہزار معاملات نمٹائے گئے۔ دیگر معاملات میں متاثرین کو 49 کروڑ روپے تک کا معاوضہ فراہم کرایا گیا۔ مہاراشٹرا، دہلی، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش سمیت 16 ریاستوں میں کووِڈ کے پھیلاو کی وجہ سے لوک عدالتیں موخر کردی گئیں۔ کرناٹکہ میں مارچ کے آخری ہفتے میں لوک عدالتوں کا اہتمام کیا گیا، ان میں 3.3 لاکھ معاملات نمٹائے گئے، جن میں متاثرین میں ایک ہزار کروڑ روپے تک کے معاوضے تقسیم کئے گئے۔

گزشتہ سال جب کووِڈ کے اثرات عروج پر تھے، قومی لوک عدالت کا اہتمام ملک میں دو بار ہوا تھا اور ان میں عدالت سے باہر ہی 12.6 لاکھ تنازعات کو نمٹایا گیا۔ جبکہ 12.8 لاکھ تنازعات میں متاثرین کو ایک ہزار کروڑ روپے تک کے معاوضے فراہم کئے گئے۔

24 ریاستوں میں ریاستی سطح کی لیگل سروس اتھارٹی آن لائن لوک عدالت کا اہتمام کرتی ہے اور آڈیو، ویڈیو میڈیا کی وساطت سے فوری انصاف بہم پہنچایا جارہا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہےکہ ہمارا قانونی نظام بڑی تیزی سے نئی ٹیکنالوجی کو اختیار کر رہا ہے۔

دُنیا میں لوک عدالت طرز کا نظام کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ سالہاسال کے تجربے کی روشنی میں اس نظام کو مزید موثر بنایا جانا چاہیے۔ ہماری عدالتوں پر بھاری بوجھ ہے اور اس کی وجہ سے مقدمات میں مبتلا لوگ پریشان ہیں۔ صورتحال کو ٹھیک کرنے سے متعلق تجاویز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ ان تجاویز کو نافذ کرنے کا ہے۔

17 فیصد مقدمات ملک بھر کی ضلع اور ذیلی عدالتوں میں گزشتہ تین سے پانچ سال سے زیر سماعت ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں 20.4 فیصد مقدمات گزشتہ پانچ سے دس سالوں سے زیر التوا ہیں۔ جبکہ 17 فیصد مقدمات گزشتہ بیس سالوں سے التوا میں ہیں۔

پچاس فیصد سے زائد کیسز میں مدعیاں مرکزی یا ریاستی سرکاریں ہیں۔ اس طرح کی صورتحال کا کہیں کوئی موازنہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ تقریباً تین دہائی قبل لا کمیشن نے مشورہ دیا تھا کہ مقدمات کو صحیح طریقے سے شنوائی کے نتیجے میں زیر التوا کیسز میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی ماضی میں بتایا ہے کہ حکومت کا اپنے شہریوں کے تئیں رویہ محاذ آرائی پر مبنی نہیں بلکہ مصالحانہ ہونا چاہیے۔

زیادہ تر معاملات جو لوک عدالتوں میں آتے ہیں، زمین کے حصول، مزدوروں سے متعلق، پینشن سے متعلق، صارفین سے متعلق، میٹروں سے متعلق یا پھر بجلی، ٹیلی فون اور میونسپل سروسز سے متعلق ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عدالت عظمیٰ نے کہہ دیا ہے کہ حکومت کا ایسے معاملات میں شہریوں کے تئیں مصالحانہ رویہ ہونا چاہیے نہ کہ محاذ آرائی پر مبنی۔

لوگوں کی اُمیدوں سے مطابقت رکھتے ہوئے لوک عدالتوں کو اس طرح سے انصاف فراہم کرنا چاہیے کہ بے بس لوگوں کے دلوں سے بوجھ ہلکا ہو۔ سال 2011ء میں نیشنل لیگل سروس اتھارٹی نے اعلان کیا کہ ہر گاؤں میں کم از کم ایک لوک عدالت قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے دور دراز دیہات میں بھی قانونی امداد بہم پہنچائی جا سکے۔ آج اس طرح کے 14 ہزار لوک عدالت موجود ہیں جبکہ ملک میں دیہات کی مجموعی تعداد چھ لاکھ ہے۔ تیزی سے انصاف کی فراہمی اور لوگوں کو اُن کے دروازے پر انصاف پہنچانے کے ہدف کو پورا کرنے لئے ملک میں لوک عدالت کے نظام کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے۔

Last Updated : Apr 13, 2021, 6:56 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.