عہد حاضر کے صف اول کے اردو نقاد، محقق اور ادیب گوپی چند نارنگ 91 برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ 11 فروری 1931 کو ڈکی، زیریں پنجاب میں پیدا ہونے والے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد اور محقق مانا جاتا تھا۔
گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931ء کو بلوچستان کے ڈکی میں پیدا ہوئے تھے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بچپن کوئٹہ میں گزارا۔ انہوں نے سنہ 1954ء میں یونیورسٹی آف دہلی سے اردو میں ایم اے اور جامعہ سے سنہ 1958ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔Renowned critic and linguist Prof Gopi Chand Narang
گوپی چند نارنگ نے سنہ 1957ء میں سینٹ اسٹیفینس کالج، دہلی میں لیکچرر کے طور پر پڑھانا شروع کیا اور 1995ء تک دہلی یونیورسٹی میں بطور پروفیسر تدریس سے وابستہ رہے۔ وہ آج بھی دہلی یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر، پروفیسر ای میریٹس، ہیں۔ 1990 میں اس وقت کے صدر وینکٹرمن نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو پدم شری سے نوازا گیا۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ دہلی میں مقیم تھے مگر وہ باقاعدگی سے پاکستان میں اردو ادبی محافل میں شریک ہوتے ہیں جہاں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیاکا سفر کرتے رہتے ہیں اور انہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے۔ وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ چند ماہ قبل تک وہ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔
اردو کی نششتوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیا کا سفر کرتے رہتے تھے اور انہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے، وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ چند ماہ قبل تک وہ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ ادبی حلقوں میں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
گوپی چند نارنگ کی کتابیں
پروفیسر گوپی چند نارنگ 64 کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کتابوں میں 45 اردو میں، 12 انگریزی میں اور سات ہندی میں لکھی گئی ہیں۔
چند کے کتابوں کے نام یہ ہیں:
- ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات
- ادب کا بدلتا منظر نام، ادبی تنقید اور اسلوبیات
- امیر خسرو کا ہندی کلام، سانحہ ککربلا بطور شعری استعارہ
- اردو افسانہ، روایت اور مسائل
- بھارتی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں
- بھارت کی تحریک آزادی اور اردو شاعری
- ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت
- جدیدیت کے بعد، ولی دکنی اور تصوف
- انسانیت اور محبت کا شاعر
- انیس اور دبیر، بیسویں صدی میں اردو ادب
- فراق گورکھپوری، اطلاقی تنقید اور سجاد ظہیر
- اردو کی نئی بستیاں، اقبال کا فن اور فکشن شعریات
- کاغذ آتش زدہ، تپش نامہ تمنا، جدید ادبی تھیوری
- غالب، معنی آفرینی اور جدلیاتی وضع
- شونیتا اور شعریات
گوپی چند نارنگ کی خدمات اور انہیں ملنے والے اعزازات
وہ اردو کے پہلے اسکالر تھے جنھیں بھارت اور پاکستان دونوں سے شہری اعزازات ملے۔ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا اور چند ماہ قبل تک وہ ساہتیہ اکیڈمی کے صدر بھی تھے۔ یہ تنظیم بھارت کی 24 زبانوں میں بھارتی ادب کی ترقی کے لیے کام کرتی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مولانا نیشنل اردو یونیورسٹی جیسی بڑی یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔ انہوں نے کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی میں پڑھایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں جامعہ اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس بھی بنایا گیا۔ انہوں نے اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز دہلی یونیورسٹی کے سینٹ اسٹیفن کالج سے کیا۔
گوپی چند نارنگ نے اپنی 91 برس کی زندگی میں کم از کم 10 بڑے اعزازات پدم بھوشن، ساہتیہ اکادمی جیسے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے اور دنیا کے چھ بڑے فیلو شپ حاصل کیے تھے۔ انہوں نے سات مقامات پر پڑھایا اور 64 سے زائد کتابیں لکھیں جن میں سے 12 انگریزی زبان میں، سات ہندی اور 40 سے زیادہ اردو زبان میں تھیں۔