لکشمی نے ایک اور طالب علم کے ساتھ 17 فروری کو کِلی منجارو پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تھا اور 21 فروری 2020 کو وہ اس کی چوٹی پر پہنچ گئیں جو 19 ہزار 340 فٹ اونچی ہے۔
لکشمی کے والدین مزدور ہیں اور ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ کم عمری میں ہی لکشمی کے سر سے والدہ کا سایہ اٹھ گیا تھا اور انتہائی غربت کی وجہ سے اس کے والد چاہتے تھے کہ لکشمی اپنی تعلیم چھوڑ دے لیکن اس نے ان تمام رکاوٹوں کو عبور کیا اور سرکاری اداروں میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔
لکشمی کے پہاڑ پر چڑھنے کی صلاحیت کو بھون گری راک کلائمبنگ اسکول اور لداخ کے اساتذہ کرام نے نکھارا۔ لکشمی کا گروپ آسانی سے18 ہزار فٹ اونچے سِلک روٹ پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہ ایک دیگر کوہ پیما کے ساتھ 'کِلی منجارو ابھیان' پر جانے کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔
کوہ پیمائی کی یہ مہم آسان نہیں ہے۔ اس نوعیت کی اونچائی کے لیے سب سے پہلے موسم کی شدت کا سامنا کرنے کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر خود کو تیار کرنا لازمی ہوتا ہے۔
صحت کا خیال رکھتے ہوئے دلیری کے ساتھ رکاوٹوں اور چھوٹے حادثات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہدف تک پہنچنے کے لیے صبر، استقامت اور قوت برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تربیت کے دوران انسٹرکٹرز کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کر کے ہی لکشمی ان تمام رکاوٹوں کو دور کرسکتی تھی۔
لکشمی نے کلی منجارو پر چڑھنے کی اپنی کامیابیوں کا سہرا تلنگانہ حکومت کے گروکُل ودیالیہ سکشا سنستھان کو دیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر موقع ملتا ہے تو وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے کے لیے تیار ہے۔ لکشمی نے مزید کہا کہ وہ گرو کول میں اپنی تعلیم جاری رکھیں گی اور ان کا ہدف آئی اے ایس افسر بننا ہے۔
دور دراز کے علاقے سے آنے والی اور ایک سوشل ویلفیئر اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی لکشمی کے اعلی اہداف کی جانب سفر ان کے بہت سے ساتھیوں کے لیے ایک مثال ثابت ہوگا۔