بھارت رتن لتا منگیشکر Bharat Ratana Lata Mangeshkar کی 92 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا ہے، اسکی اطلاع مرکزی وزیر نتن گڈکری اور لتا منگیشکر کی بہن اوشا منگیشکر نے دی ہے۔ Lata Mangeshkar passes away at 92
بھارت کی سب سے مشہور پلے بیک سِنگر (گلوکارہ) لتا منگیشکر ۔ پوری دنیا میں لتا منگیشکر کے لاکھوں مداح انہیں 'سرسوتی کا اوتار' سمجھتے ہیں اور ان کی جادوئی آواز کی دیوانی ہے۔
تقریباً چھ دہائیوں سے اپنی بے مثال اور جادوئی آواز میں 20 سے بھی زائد زبانوں اور پچاس ہزار سے بھی زیادہ نغموں کو اپنی آواز دے کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے والی موسیقی کی دیوی لتا منگیشکر آج بھی مداحوں کے دلوں پر راج کررہی ہیں۔
لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء کو اندور میں پیدا ہوئی تھیں۔ لتا منگیشکر کا اصلی نام ہیما ہریکدر تھا۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار اور اداکار تھے۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل تھیں، لہذا انہوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔
سال 1942 میں تیرہ برس کی عمر میں لتا منگیشکر کے سر سے باپ کا سایہ اٹھا گیا اور خاندان کی ذمہ داری لتا منگیشکر کے اوپر آگئی۔ جس کے بعد ان کا پورا خاندان پونے سے ممبئی آگیا۔
حالانکہ لتا دی دی کو فلموں میں کام کرنا بالکل پسند نہ تھا۔ اس کے باوجود گھر والوں کی مالی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے انہوں نے فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔
لتا منگیشکر نے والد کے انتقال کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کردی تھی۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے سروں کی دنیا میں مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کی بہن آشا بھونسلے نے بھی گلوکاری میں اہم مقام حاصل کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں بہنوں کی آوازوں نے بھارتی فلم انڈسٹری پر قبضہ کرلیا۔
سال 1945 میں لتا منگیشکر کی ملاقات موسیقار غلام حیدر سے ہوئی۔ غلام حیدر لتا کے گانے کے انداز سے کافی متاثر تھے۔ غلام حیدر نے فلم ڈائریکٹر ایس مکھرجی سے یہ گزارش کی کہ وہ لتا دی دی کو اپنی فلم 'شہید' میں گانے کا موقع دیں۔
ایس مکھرجی کو لتا منگیشکر کی آواز پسند نہیں آئی اور انہوں نے دی دی کو اپنی فلم میں لینے سے انکار کردیا۔ اس بات کو لیکر غلام حیدر کافی غصہ ہوئے اور انہوں نے کہاکہ لڑکی آگے چل کر اتنی شہرت کمائی گے کہ بڑے بڑے ہدایت کار اسے اپنی فلموں میں گانے کے لئے گزارش کریں گے۔
سال 1949 میں فلم 'محل' کے گانے بعد لتا منگیشکر بالی ووڈ میں اپنی پہنچان بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس کے بعد راج کپور کی فلم 'برسات' کا گانا جیا بے قرار ہے، ہوا میں اڑتا جائے جیسے گانے گانے کے بعد لتا بالی ووڈ میں ایک کامیاب پلے بیک سنگر بن گئیں۔
سری رام چندر کی موسیقی میں لتا نے پردیپ کے لکھے گیت پر ایک پروگرام کے دوران ایک غیر فلمی گیت 'اے میرے وطن کے لوگوں' گایا۔ اس نغمے کو سن کر وزیراعظم جواہر لعل نہرو اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھ سے آنسو آگئے۔ لتا منگیشکر کے اس گانے کو سن کر آج بھی لوگوں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
لتا منگیشکر کی سریلی آواز سے نوشاد کی موسیقی میں چار چاند لگ جاتے تھے۔ موسیقار نوشاد، لتا دی دی کی آواز کے اس قدر دیوانے تھے کہ وہ اپنی ہر فلم کے لیے انہیں ہی منتخب کیا کرتے تھے۔
سال 1960 میں ریلیز ہوئی فلم 'مغل اعظم' کا مشہور نغمہ 'موہے پنگھٹ' سے گیت کی ریکارڈنگ کے دوران نوشاد نے لتا منگیشکر سے کہا تھا کہ میں نے یہ گیت صرف تمہارے لئے ہی بنایا ہے اس گیت کو کوئی اور نہیں گا سکتا۔
ہندی سنیما کے شومین کہے جانے والے راج کپور کو ہمیشہ اپنی فلموں کے لئے لتا منگیشکر کی آواز کی ضرورت رہا کرتی تھی۔ راج کپور لتا کی آواز سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے لتا منگیشکر کو سرسوتی کا درجہ تک دے رکھا تھا۔ 60 کی دہائی میں لتا منگیشکر پلے بیک سنگرس کی مہارانی کہی جانے لگیں۔
سال 1969 میں لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی سے سجی فلم 'انتقام' کا گانا 'آجانے جاں' گا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ آشا بھونسلے کی طرح ہر دھن پر گاسکتی ہیں۔ 90 کی دہائی آتے آتے لتا کچھ چنندہ فلموں کے لئے ہی گانے گانے لگیں۔
سال 1990 میں اپنے بینر کی فلم لیکن کے لئے لتا نے یارا سیلی سیلی گانا گایا۔ حالانکہ یہ فلم کامیاب نہیں ہوپائی لیکن یہ گانا آج بھی لتا کے بہترین گانوں میں شمار ہوتا ہے۔ لتا کو ان کے سنی کیرئیر میں چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ لتا کو ان کے گائے نغموں کے لئے سال 1972 میں فلم پریچے، سال 1975میں کورا کاغذ اور سال 1990 میں فلم لیکن کےلئے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مزید پڑھیں:Lata Mangeshkar passes away:گلوکارہ لتا منگیشکر کا انتقال
علاوہ ازیں لتا کو سال 1969 میں پدم بھوشن، سال 1989 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، سال 1999 میں پدم وبھوشن، سال 2001 میں بھارت رتن جیسے کئی اعزازت سے نوازا گیا۔