کولکاتا شہر کی تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہ ایک قدیم بازار ہے۔ شہر کے درمیان مصروف ترین بازار چاندنی چوک کا نشان، کولکاتا شہر کے ایک قدیم نقشے میں جو اوپ جان کے میپ 1784 میں ملتا ہے جس میں اسے چاندنی چوک بازار درج کیا گیا ہے، اس کے علاوہ چاندنی بازار کا راستہ، چاندنی چوک اور گوری مار لین جیسے نام تھے، لیکن اتنے برسوں میں اتنی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کہ موجودہ بازار میں پرانی کوئی نشانی باقی نہیں رہی۔W H Carey نے اپنی کتاب The good old days of honourable John Company میں لکھا ہے کہ چاندنی مارکیٹ کا نام بنگالی لفظ چاندنا سے نکلا ہے کیوں کہ وہاں وقتی سائبان والے مکانوں کی وجہ سے پڑا تھا۔ 1937 کولکاتا کارپوریشن نے چاندنی مارکٹ کو کشادہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کا نام بھی تبدیل کیا گیا تھا، گوریامار لین سے بدل کر چاندنی چوک اسٹریٹ رکھا گیا تھا۔
آج چاندنی مارکیٹ کے نام سے مقبول یہ مارکیٹ الیکٹرانکس سامان کے لئے پورے مشرقی بھارت میں مشہور ہے۔ قدیم زمانے میں یہاں دوسری طرح کے سامان کی بھی دکانیں تھیں لیکن آہستہ آہستہ یہ جگہ الیکٹرانکس ہب میں تبدیل ہو گئی۔ آج اس جگہ پر سینکڑوں الیکٹرانکس سامان کی دکانیں ہیں، اس کے علاوہ یہاں متعدد ہارڈویئر کی دکانیں بھی ہیں۔ الیکٹرانکس سامان کے نئے پرانے ہر طرح کے سامان یہاں دستیاب ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ چاندنی مارکیٹ میں ہر چیز ملتی ہے اور الیکٹرانکس سے متعلق ہر چیز کی یہاں مرمت ہوتی ہے۔ خاص طور پر دیوالی کے موقع پر یہاں کافی بھیڑ ہوتی ہے چونکہ یہ تھوک مارکیٹ بھی ہے، اس لئے بڑے پیمانے پر کاروبار ہوتا ہے۔ دیوالی کے موقع پر روشنی کرنے کے لئے قمقموں کی بڑے پیمانے پر خریداری ہوتی ہے۔ گذشتہ دو برسوں میں لاک ڈاؤن کے دوران یہاں دکانداروں کو کافی نقصان ہوا لیکن ایک بار پھر سے چاندنی مارکیٹ میں وہی رونق نظر آئی، دکانداروں کے چہرے پر بھی خوشی نظر آئی۔
مزید پڑھیں:۔ دیوالی کے موقع پر پہلی بار نیویارک کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر جگمگا اٹھا
دیوالی کے موقع پر خریداری کے لئے آئے سمیت داس نے بتایا کہ وہ ہر سال دیوالی میں یہیں آتے ہیں کیونکہ یہاں لائٹننگ کے کئی اقسام آسانی سے مل جاتے ہیں اور قیمت بھی کم ہوتی ہے الیکٹرانکس کا کوئی سامان خریدنا ہو تو چاندنی مارکیٹ کی طرف ہی رخ کرتے ہیں۔
ایک دکاندار جاوید نے بتایا کہ اس بار مارکٹ میں کافی بھیڑ ہے، مال کی کمی ہو رہی ہے، دوسری جانب سامان کی قیمتیں بھی بڑھی ہوئی ہیں جس سے خریدار بھی پریشان ہو رہے ہیں۔
ایک دکاندار محمد اکبر نے بتایا کہ چاندنی مارکیٹ میں بنگال کے علاوہ اڑیسہ، بہار اور جھارکھنڈ سے بھی لوگ خریداری کے لئے آتے ہیں۔ دیوالی کے موقع پر چھوٹے دکانداروں کی بھی اچھی کمائی ہوتی ہے۔ بڑے کاروباری لاکھوں میں کاروبار کرتے ہیں۔ اس بار دیوالی کا بازار اچھا ہے۔
الیکٹرانکس سامان کے ایک بڑے ڈیلر راکیش خنچندانی جو گذشتہ 20برسوں سے کاروبار کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ چاندنی مارکیٹ کی جو موجودہ شکل ہے اس کو 25 برس ہو گئے ہیں۔ اس مارکیٹ میں الیکٹرانکس کے ہر طرح کی چیزیں ملتی ہے، ہر وقت بھیڑ رہتی ہے چلنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے۔ چینی اور کوریائی کمپنیوں کے مال زیادہ ہوتے ہیں، بھارتی کمپنیوں کے بھی مال یہاں فروخت کئے جاتے ہیں۔
ایک دکاندار محمد سہیل نے بتایا کہ دیوالی کے موقع پر اس مارکیٹ میں ہندو مسلم بھائی چارہ بھی نظر آتا ہے ۔مارکیٹ میں ہندو مسلم دونوں دکاندار ہیں۔گذشتہ سال کافی نقصان ہوا تھا لیکن اس بار ہمیں تھوڑی راحت ملی ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی نظر آئے جن کو مارکیٹ اس بار مہنگی نظر آئی جس کی وجہ سے ان کا بجٹ فیل ہوا گیا ۔ٹالی گنج سے دیوالی کے لئے لائٹننگ کے لئے خریداری کرنے آئے کرن نے بتایا کہ اس بار ہر سامان کی قیمت بڑھی ہوئی ہے، ہم کفایتی قیمت کے لئے ہر سال دیوالی کے موقع پر یہاں آتے ہیں لیکن اس بار کورونا کی وجہ سے سب کچھ مہنگا ہے جس کی وجہ سے بجٹ فیل ہو گیا ہے۔
چاندنی مارکیٹ کو کئی بار کشادہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ دکاندار اور ہاکرس نے ہر ایک انچ پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور عارضی ڈھانچے سے مارکیٹ پوری طرح ڈھکا ہوا ہے۔ حالت ایسی ہے کہ فٹ پاتھ نظر بھی نہیں آتا ہے۔ چاندنی مارکیٹ کے بارے میں اس سے متصل نیو مارکیٹ کی ہی طرح یہ بات مشہور ہے کہ یہاں کئی ایسی چیز نہیں جو نہیں ملتی اور کوئی الیکٹرانکس کا سامان ایسا نہیں جس کی مرمت یہاں نہیں ہوتی ہے۔یہ بات عام ہے کہ اگر کوئی چیز چاندنی میں نہیں ملی یا کسی چیز کی مرمت نہیں ہوئی تو اب شہر میں یہ کام کہیں بھی ممکن نہیں ہے۔