ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے جوتا والی گلی میں 'نثار حقہ ہاوس' تقریبا سو برس قدیم دکان ہے، اس سے قبل اس دوکان کا نام 'چودھری حقہ ہاوس' ہوا کرتا تھا اور اسی نام سے معروف تھا۔
انیسویں صدی کے اواخر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو نوابین اودھ میں حقہ نوشی کی روایت بھی ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ لکھنو میں حقہ پر کاریگری اور خوبصورت حقہ تیار کئے گئے اور آج بھی اسی طرز کے حقے پرانے لکھنؤ میں فروخت ہورہے ہیں۔
حقہ فروش نثار بتاتے ہیں کہ موجودہ دور میں حقہ نوشی کی روایت دوبارہ زندہ ہوگئی ہے اور نوجوان اس جانب تیزی سے مائل ہو رہا ہے۔
نثار احمد بتاتے ہیں کہ جب کوئلہ کے ذریعہ حقہ نوش کیا جاتا تھا اس زمانے میں حقہ نوشی قدرے مشکل تھا لیکن موجودہ دور میں جب سے چائنا نے جدید طریقے اور کوئلے تیار کیے ہیں اس سے ہیں حقہ نوشی کی روایت عام ہوتی جارہی ہے اور نوجوان نسل تیزی سے اس جانب راغب ہو رہی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لکھنؤ، دہلی، راجستھان اور ہریانہ کے حقہ نوشی مختلف ہے۔ دہلی، راجستھان اور ہریانہ میں تمباکو کا کثیر مقدار میں استعمال کیا جاتاہے لیکن لکھنؤ میں میٹھے حقہ کا اسعتمال کیا جاتا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ روایتی حقہ سے علیحدہ جب سے بازار میں شیشے کا حقہ آیا ہے تب سے شہر کے رؤسا گھروں میں حقہ کو بطور نمائش رکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ تمباکو نوشی کرنے والوں کو کورونا وائرس کا زیادہ خطرہ
عالمی ادارہ صحت کے مطابق حقہ نوشی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، پھیپھڑوں پر غلط اثرات مرتب کرتا ہے۔( لہذا ای ٹی وی بھارت بھی اپنے سبھی ناظرین و قارئین سے یہی التماس کرتا ہے کہ حقہ نوشی سے پرہیز کریں)